نیویارک (تجزیہ:عظیم ایم میاں)ایران پر اسرائیلی حملے نے امریکی مسلمان ووٹرز کو مزید پریشان اور منتشر کردیا ہے ، کملا اور ٹرمپ اسرائیل کے حامی، اہمیت اور افادیت کے باوجود مسلمان مطالبہ منوانے کی پوزیشن میں نہیں ، منظم اور متحرک ہوکر موثر کردار ادا کرنا ، اپنے موقف اور حیثیت کو منوانے کی حکمت عملی ہی واحد مفید راستہ ہے۔
ایران پر اسرائیلی حملوں کی اطلاعات سے پاکستان سمیت مسلم دنیا میں پھیلتی ہوئی جنگ، طاقت کے توازن میں تبدیلی بارے تشویش لازم ہے لیکن امریکا میں 5 نومبر کو ہونے والے صدارتی اور امریکی کانگریس کے انتخابات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ امریکی صدر بائیڈن اور اگلی امریکی صدارت کے دونوں امیدوار ڈیموکریٹ کملا ہیریس اور ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے اتحادی اسرائیل کے عزائم ، منصوبوں او اقدامات سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ اسرائیل کی جنگ اور سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ عالمی سطح پر اس کی حمایت کیلئے اعلانیہ موقف اور امریکا کی تمام تر قوت سے اسرائیل کا دفاع کررہے ہیں، لہٰذا امریکا کے مسلمان ووٹرز نہ تو اس صورتحال کو تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اور چوائس ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اسرائیل جو بھی مناسب سمجھتا ہے وہ کرلے، گویا ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کھل کر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے تمام جنگی عزائم اور اقدامات کی کھل کر حمایت کی ہے جبکہ ڈیموکریٹ کملا ہیریس تو پہلے ہی بائیڈن حکومت کی اسرائیلی پالیسی، حمایت اور اسلحہ کی امداد کے عمل کا حصہ ہیں۔
ایسی صورت میں امریکی انتخابات میں سخت مقابلہ اور امریکی مسلم ووٹرز کی اہمیت و افادیت میں اضافہ کے باوجود مسلمان ووٹرز مشرق وسطیٰ میں پھیلتی ہوئی جنگ بارے اپنا کوئی مطالبہ منوانے کی پوزیشن میں نہیں بلکہ اس صورتحال نے پاکستانیوں سمیت تمام مسلمان ووٹرز کو تقسیم، انتشار اور اختلاف کا شکار کردیا ہے۔
منظم اور متحرک ہوکر کسی اقلیتی کمیونٹی کا امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی سے وابستہ ہوکر موثر رول ادا کرنا اور اپنے موقف اور حیثیت کو منوانے کی حکمت عملی ہی واحد مفید راستہ ہے لیکن جب کوئی اقلیتی کمیونٹی خود ہی اپنی داخلی تقسیم اختلاف کا شکار ہو اور مربوط منصوبہ بندی نہ کرسکے تو پھر امریکا بھر میں ابھرتی ہوئی تیسری بڑی مذہبی اقلیت اپنی سیاسی حیثیت کیسے تسلیم کرواسکتی ہے؟ اب آیئےچند تلخ حقائق کی جانب کہ امریکا کے مسلمان ووٹرز کیا کرسکتے ہیں؟
مسلم دنیا کی توقعات کیا ہیں؟ اور مسلمان ووٹرز کے پاس کیاچوائس ہے؟ پہلی حقیقت یہ ہے کہ 345ملین سے زائد والے امریکا میں اعدادوشمار کے مطابق مسلمان آبادی 5ملین سے کم 4,453,908اور کل آبادی کا 1.34فیصد حصہ ہیں۔