• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدارتی انتخابات: 2 بڑے امریکی اخبارات کا ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی حمایت نہ کرنے کا اعلان

فوٹو بشکریہ سوشل میڈیا
فوٹو بشکریہ سوشل میڈیا

امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ملک کے بڑے اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز کی جانب سے کسی بھی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

یہ اعلان امریکی میڈیا انڈسٹری کے بڑے اداروں کے طویل عرصے سے چلے آنے والے کردار میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ 

1988ء کے بعد پہلی بار سامنے آنے والا یہ اقدام امریکی میڈیا انڈسٹری کے تمام بڑے اداروں کی جانب سے طویل مدت سے برقرار رکھی ہوئی روایت سے انحراف ہے۔

اس اقدام نے صحافتی ذمے داریوں اور عوامی اعتماد کے حوالے سے ایک وسیع بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ 

اس حوالے سے واشنگٹن پوسٹ کے سی ای او ول لیوس نے اسٹاف کو اطلاع دی  ہے کہ ادارہ اب صدارتی امیدواروں کی حمایت نہیں کرے گا اور اس نئی پالیسی پر فوری اطلاق ہو گا۔

انہوں نے اس فیصلے سے متعلق وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ قارئین کو خود سے اس حوالے سے فیصلہ کرنے کا موقع دینے کی خواہش پر مبنی ہے۔ 

واشنگٹن پوسٹ کی طرح لاس اینجلس ٹائمز نے بھی آئندہ صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکا کے دونوں بڑے اخبارات کے ان فیصلوں نے ادارے کے اندر اور باہر سخت ردِعمل کو جنم دیا ہے اور اب یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ تبدیلی کیوں اور کس مقصد کے تحت کی گئی ہے؟

واشنگٹن پوسٹ کے سی ای او ول لیوس نے اس فیصلے کو ادارے کی بنیادی اقدار کی طرف واپسی قرار دیا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے 1960ء کی دہائی کے اس اداریے کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں اس وقت کے صدارتی امیدواروں کی حمایت کرنے سے گریز کیا گیا تھا اور اس فیصلے کا مقصد قارئین کی آزادانہ رائے سازی کے حق کا احترام کرنا تھا۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ انتخابات امریکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات میں شمار کیے جا رہے ہیں۔

اس حوالے سے ادارتی اسٹاف کی نمائندگی کرنے والے صحافیوں کی یونین پوسٹ گِلڈ نے انکشاف کیا ہے کہ کملا ہیرس کے حق میں ایک اداریہ پہلے ہی تیار تھا لیکن پھر اخبار کے مالک جیف بیزوس نے اسے شائع نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کی وجوہات اب تک واضح نہیں ہیں۔

دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ کے سابق ایڈیٹر مارٹی بیرون اور دیگر معروف میڈیا شخصیات نے فوراً اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’بزدلی‘ اور عوام کو معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے اخبار کی ذمے داری سے انحراف قرار دیا ہے۔

ناقدین نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ انتخابات میں شمولیت اور فتح کی صورت میں ادارے کی اس خاموشی کو ان کی حمایت سمجھا جا سکتا ہے۔ 

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اخبارات نے کسی بھی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کر کے دونوں امیدواروں میں برابری کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

ناقدین نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ میڈیا انڈسٹری میں غیر جانبداری اور جمہوری اصولوں کے انحراف کی طرح ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب میڈیا کے کردار پر بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔

 گارڈیئن کی کالم نگار مارگریٹ سلیوان نے اس فیصلے کو ’عوامی فریضے سے انحراف‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خاموشی ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے کی حمایت کا تاثر دے سکتی ہے۔ 

یہاں اس بات کا ذکر کرنا اہم ہے کہ اس نظریے کے حامیوں کے نزدیک غیر جانبداری کا مطلب بعض اوقات جمہوریت کے تقاضوں سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز جیسے بڑے اخبارات کا یوں صدارتی امیدوار کی حمایت سے گریز کرنے کا فیصلہ امریکی میڈیا انڈسٹری میں سیاسی صحافت میں ایک غیر متوقع تبدیلی ہے جس کے اثرات امریکی میڈیا کی ساکھ پر پڑ سکتے ہیں اور اخبارات پر سے عوام کا اعتماد بھی ختم ہو سکتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں جب امریکا میں جمہوریت اور اس کے اصول سب سے زیادہ اہم ہیں تو ان دونوں اخبارات کے اس فیصلے کو غیر جانبداری نہیں بلکہ خاموشی سمجھا جا رہا ہے۔

اس فیصلے سے واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز کے اسٹاف ممبران میں بھی مایوسی پھیل گئی ہے جس کی وجہ سے کئی اداریہ نگاروں نے احتجاجاً اپنی نوکری سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔

جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں یہ فیصلہ یہاں تقسیم شدہ سیاسی ماحول میں میڈیا کے ارتقاء پزیر کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز کا یہ فیصلہ نیویارک ٹائمز اور گارڈیئن جیسے دیگر اداروں کے اقدامات سے مختلف ہے جنہوں نے کھل کر کملا ہیرس کی حمایت کی ہے۔

ان دونوں اخبارات نے کملا ہیرس کے انتخاب کو جمہوری اقدار کے مطابق قرار دیا ہے۔

ان کے علاوہ نیویارک پوسٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی ہے جو کہ ان کے نقطۂ نظر کے عین مطابق ہے۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید