اسلام آباد(فخر درانی ) سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ اگر وہ چیف جسٹس ہوتے تو ان کی جانب سے موجودہ حکومت کو گرانے یا ہٹانے کی کوئی اسکیم ہوتی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات محض قیاس آرائیاں ہیں اور ان کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
دلچسپی آئین، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے فروغ میں ہے، متنازع ہونے کے الزامات بے بنیاد ہیں تاریخ خود بولے گی، حکومت گرانے کا خیال الزام لگانے والوں کی اپنی تصوراتی دنیا کا حصہ ہے، حکومتی وزراء کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر جاری الزامات اور عدم اعتماد کے درمیان، اس نمائندے نے سینیئر جج کے قریبی ذرائع سے رابطہ کیا تاکہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کے حقائق جان سکیں اور صورتحال کی وضاحت حاصل کی جا سکے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع نے کہا، "جسٹس منصور علی شاہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مکمل طور پر غیر سیاسی ہیں۔
ان کی دلچسپی آئین، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کو فروغ دینے میں ہے۔ اور ان کے لیے اس مقصد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔"حکومت گرانے کا خیال ان کی اپنی تصوراتی دنیا کا حصہ ہے۔
اس کا 26ویں آئینی ترمیم کے آئینی جائزے سے کوئی تعلق نہیں ہے جب بھی یہ معاملہ عدالتوں میں آئے گا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ کوئی جج متنازع ہے۔ اس معاملے میں نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی ماضی کے فیصلے اس الزام کی تصدیق کرتے ہیں۔
لہٰذا یہ الزام نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ بے بنیاد ہے،" جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع نے تبصرہ کیا۔ذیل میں اس نمائندے اور جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع کے درمیان تفصیلی بات چیت ہے۔
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان کے "عدالتی بادشاہت" اور ججوں کی سیاست میں مداخلت کے بارے میں ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع نے وضاحت کی، "جسٹس شاہ سابقہ چیف جسٹسز کے اقدامات کے ذمہ دار نہیں ہیں، اور وہ ان کے طرز عمل کی منظوری نہیں دیتے —
انہوں نے ان کے خلاف بھی لکھا ہے۔ تمام ججوں کو اس طرح عمومی طور پر متنازع بنانا غیر منصفانہ ہے۔ ان کے فیصلے ان کا ریکارڈ ہیں۔