کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرا م ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق نے سوال رکھا کہ کیا حامد خان گروپ کی شکست یہ ظاہر کرتی ہے آئینی ترمیم کے خلاف احتجاجی تحریک دم توڑ گئی ؟
اس کے جواب میں سہیل وڑائچ اور سلیم صافی نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے نتائج سے احتجاجی تحریک کو دھچکہ ضرور لگا ہے لیکن اس الیکشن کو تحریک انصاف کی ناکامی یا نون لیگ کی کامیابی کا رنگ نہیں دیا جاسکتا۔ چونکہ وکلاء کے دونوں گروپوں میں ہر پارٹی اور ہر سوچ کا شخص موجود ہےلیکن اگر حامد خان کا گروپ جیت جاتا تو ان کیلئے تحریک برپا کرنا نسبتاً آسان ہوتاجبکہ شہزاد اقبال اور عمر چیمہ نے کہا کہ اس وقت تحریک انصاف کے لوگ یا وکلاء احتجاج کے لیے نکلنے کے موڈ میں نہیں ہیں اور الیکشن سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
عاصمہ جہانگیر گروپ کے حق میں نتائج آنے کا مقصد تو یہی ہے کہ احتجاج نہیں ہوسکتا ۔
تفصیلات کے مطابق تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر نے جو اس سے متعلق رائے دی ہے اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ وکلاء کے دونوں گروپ کی بہت ویلیو ہے اور تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو دونوں آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔جب میڈیا اور ملک پر سخت وقت تھا تو ان دونوں گروپوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے ۔
تحریک انصاف چاہتی تھی سپریم کورٹ بار کا الیکشن خالصتاً سیاسی ہو وہ نہیں ہوسکا ۔اپوزیشن بھی متحرک ہوتی ہے اس لیے تحریک چل سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ بار کے نتائج سے احتجاجی تحریک کو دھچکہ ضرور لگا ہے ۔
تجزیہ کار شہزاد اقبال نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم کے بعد عام تاثر بن رہا تھا کہ عاصمہ جہانگیر گروپ کے جیتنے کے امکانات کم ہوگئے ہیں لیکن نتیجہ یقیناً سرپرائز تھا ۔
حامد خان کی جانب سے چھبیسویں آئینی ترمیم کے احتجاج پر الیکشن لڑا گیا لیکن مجھے اس الیکشن سے پہلے بھی کوئی خاص موومنٹ نظر نہیں آرہی تھی جبکہ تحریک انصاف کو بھی سڑکوں پر احتجاج ہوتا نظر نہیں آرہا ہے اور وہ احتجاج کو تبدیل کر کے جلسے کی طرف چلے گئے ہیں۔