کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ اسمبلی، صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو نے ایوان کو بتایا کہ 1991 سے لے کر آج تک پورا پانی نہیں ملا ،ہم مسلسل پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نیا بیراج کس طرح بن سکتا ہے، ایوان نے اجلاس سے قبل قومی ترانہ پڑھنے، امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے شجر کاری مہم شروع کرنے اور ممتاز تاریخ داں اور محقق گل حسن کلمتی کے نام سے ایک سڑک منسوب کرنے سے متعلق چار قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں، منگل کو پرائیوٹ ممبر ز ڈے کے موقع پر وزیر آبپاشی جام خان شورو کی جانب سے ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ سندھ کو اس وقت پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر تباہ ہوگئی ہے ۔سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو نے کہا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت کے باعث زراعت متاثرہورہی ہے۔ہمارے صوبے میں 70فیصد لوگ زراعت پرگذارہ کرتے ہیں ، ہمیںپانچ فیصد بھی اگرپانی کم ملے گاتوسندھ کودوسے تین ارب ڈالرکانقصان ہوگا۔انہوں نے یہ بات منگل کو سندھ اسمبلی میں محکمہ آبپاشی سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتائی۔سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سندھ اسمبلی اویس قادر شاہ کی زیر صدارت شروع ہوا۔قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے دریافت کیا کہ کیا سندھ میں 2019 سے 2021 تک پانی کی قلت تھی ، اور اس کے نتیجے میںکتنی پیداوار متاثر ہوئی۔ وزیر آبپاشی نے کہا کہ 2019 سے 2021 تک دریائے سندھ میں 20 سے 30 فیصد پانی کی قلت تھی ،پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ میں زرعی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔