• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں‘‘، اس فقرے کا کیا مطلب ہے؟ اکثر یہ جملہ کمزور اور شکست خوردہ افراد کی زبان سے سننے میں آتا ہے، وہ لوگ جو لمحہء موجود میں کسی بنا پر پچھڑے ہوئے ہیں لیکن ان کا گمان یہ ہے کہ وہ ’’سچ‘‘ اور ’’انصاف‘‘ کے اصولوں کی پیروی کر رہے ہیں، اور آخری فتح تو ان کے ’’سچ‘‘ کی ہو گی۔ کالج کے زمانے کے سرخے دوست یاد آ رہے ہیں جو چمکتی آنکھوں اور جوشیلے لہجوں میں ’’تاریخ کی درست سمت‘‘ میں کھڑے ہونے کا اعلان قطعیت سے کیا کرتے تھے۔

مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ فاتحین لکھا کرتے ہیں، جس میں وہ ہمیشہ درست سمت میں کھڑے ہوئے پائے جاتے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر کے حامی تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے تھے، اور ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے والے تاریخ کی درست سمت میں کھڑے تھے؟ امریکا کے ہمراہ لڑنے والے طالبان تاریخ کی درست سمت میں کھڑے تھے، اور آج طالبان حکومت تاریخ کی غلط سمت میں کھڑی ہے؟ اس مسئلے میں پیچاک ہی پیچاک ہیں۔بہرحال، ہم نے اپنے اردگرد جن لوگوں کو یہ اصطلاح استعمال کرتے دیکھا ہے ان کا مقصد بہ ظاہر حریفوں پر اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے، یعنی آخری فتح ’’سچ‘‘ کی ہو گی، یعنی آخری فتح ان کی ہو گی۔

ملکی سیاست کے میدان میں یہ اصطلاح مزید مضحکہ خیز لگنے لگتی ہے، ایک سیاسی جماعت تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑی ہے، اور دوسری غلط سمت میں، اور ان کے درمیان یہ رول بدلتے بھی رہتے ہیں، کبھی کوئی درست سمت میں کھڑا ہے اور کبھی کوئی۔یہ تو درست ہے کہ کچھ اصول ہیں جنہیں ہم ابدی گردانتے ہیں، مثلاً مظلوم کی حمایت، جبر سے تنفر، انصاف پسندی، حسن و خیر سے محبت وغیرہ، مگر نور کے یہ عالی شان مینارے کسی سیاسی جماعت کی اساس و مِلک قرار دے کر اس کے سیاہ و سفید کی حمایت کو تاریخ کی درست سمت قرار دینا توہینِ خِرد کے زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔اس تمہید کی شانِ نزول کچھ یوں ہے کہ کل ایک دوست جسٹس فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہنے لگے کہ’’ہمیں تو اتنا پتا ہے کہ انہوں نے ہمارے کپتان سے بلّے کا نشان چھینا تھا جو ان کے متعصب جج ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے‘‘ اور پھر انہوں نے وہ تاریخی جملہ عطا کیا کہ ہر وہ شخص جو تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہے، عمران خان کے حق میں ہے اور قاضی کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے یہ گفتگو زیادہ دیر نہیں چل پائی۔ مگر بہرحال کالم کا موضوع طے پا گیا۔ بات یہ ہے کہ ہماری نظر میں سیاست دان ہوں یا جج، علماء ہوں یا اساتذہ، انسان ہوتے ہیں، اپنی تمام تر خوبیوں اور بشری خامیوں سمیت، اور اسی منصب پر بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ قاضی صاحب کو بھی ہم اسی اصول کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ قاضی صاحب نے بلّے کے نشان والا جو فیصلہ دیا وہ بہ ظاہر قانون کے عین مطابق دیا، کیس کی کارروائی نشر کی گئی، آج بھی اس کی ریکارڈنگ میسر ہے اور دیکھی جا سکتی ہے، اور دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ قاضی صاحب کا وہ فیصلہ ہمارے پسندیدہ فیصلوں میں شامل نہیں ہے۔ قاضی صاحب کا ایک آدھ فیصلہ نہیں، درجن بھر فیصلے ایسے ہیں جو ہماری نظر میں انہیں پاکستان کی تاریخ کے ممتاز ترین منصفوں کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں، اور یہ فیصلے کوئی دیوانی یا فوجداری نوعیت کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہیں، یہ وہ فیصلے ہیں جن سے ہر ’’سمجھ دار‘‘ جج کتراتا رہا ہے، جن فیصلوں سے ’’پر جلتے ہیں‘‘، یہ فیصلے اس ریاست کے حساس ترین مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔

واقفانِ حال جانتے ہیں کہ جس دن نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف کیس چلانے کی اجازت دی تھی، اسی دن ان کی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ آغاز کر دیا گیا تھا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے مشرف کو غدار قرار دیا تو ریاست اس وقت تک بے چین رہی جب تک اس فیصلے کو ختم نہ کروا دیا گیا۔ سال ہا سال سپریم کورٹ نے اس فیصلے کی اپیل ہی نہ سنی۔ قاضی صاحب نے یہ اپیل نہ صرف سنی بلکہ جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ بھی بحال کر دیا۔ اس فیصلے کی اہمیت اہلِ نظر خوب جانتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو غلط قرار دینا ہر لحاظ سے ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے، یہ عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے اپنے گناہ کا اولین اعتراف ہے، قاضی صاحب نے ایک راستہ دکھایا ہے جو بہت دور تک جا سکتا ہے۔ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پاکستان کو لاحق جان لیوا مرض کی درست تشخیص ہے، سود و زیاں سے بے نیاز شخص ہی ایسا فیصلہ کر سکتا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تو اپیل ہی برسوں پڑی رہی، کسی کو جرات ہی نہ ہوئی کہ اس بھڑوں کے چھتے کو ہاتھ لگائے۔ قاضی صاحب نے جسٹس شوکت صدیقی کی تکریم بحال کی۔ہمارے نزدیک تو ان کا پارلے مان کی برتری کو تسلیم کرنا ہی ہر عمل پر بھاری ہے۔ کیا کیا گنوایا جائے، ڈیم فنڈ کے 32 ارب حکومت کے اکائونٹ میں جمع کروائے، منی لانڈرنگ کے 190ملین پائونڈ عوام کے خزانے میں جمع کروائے،63 اے میں آئین بحال کیا، جہاں سال ہا سال فل کورٹ کا اجلاس نہیں ہوتا تھا، وہاں یہ ’’کارنامہ‘‘ بھی کر کے دکھایا۔ طوالت کے خوف سے بہت سے زریں فیصلے قلم انداز کرنا ہوں گے۔ باقی جمع تفریق آپ خود کر لیں۔

اگر آپ کی نظر میں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، عطا بندیال تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں تو آپ سے بحث نہیں ہو سکتی...آپ کے لیے دعا ہو سکتی ہے...یا اللہ یا شافی۔

تازہ ترین