پروفیسر خالد اقبال جیلانی
نمازِ جمعہ، اسلام کی بنیادی عبادتوں اور دینی شعائر میں سے ایک ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے اور پہلی نماز جمعہ کی ادائیگی و فرضیت کے وقت سے امت مسلمہ آج تک جمعہ کی پابندی کرتی آئی ہے۔ انقلاباتِ زمانہ سے امت میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے، لیکن کبھی بھی جمعہ کی نماز ترک نہیں کی گئی ،بلکہ پابندی سے ادا کی گئی۔ تمام ائمہ و فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ جمعہ کا دن ہفتے کے تمام دنوں میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت اور افضل دن ہے’’۔ جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے ان میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے‘‘ (صحیح مسلم)
اجتماع جمعہ اور نمازِ جمعہ میں سب سے اہمیت کا حامل خطبۂ جمعہ ہے۔ عموماً اس کی فضیلت اور اجر و ثواب کے متعلق تو گفتگو کی جاتی ہے، لیکن اہمیت و افادیت کا پہلو یا تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے۔ حالانکہ فضیلت اور اجر و ثواب کا تعلق انسان کے ا خلاص اور حسن نیت پر ہے ۔ وہ تو اسے اس کی نیت کے مطابق مل ہی جائے گا ،لیکن جو قابل غور پہلو ہے ،وہ اس کی افادیت کا ہے۔ اس کی افادیت و اہمیت ہی کی وجہ سے خطبۂ جمعہ کی بغور و مودّب سماعت و اجبات میں سے ہے۔
خطبۂ جمعہ کی اسی افادیت و اہمیت کے متعلق متعدد احادیث مروی ہوئی ہیں جن میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’ خطبۂ جمعہ شروع ہونے سے پہلے مسجد میں پہنچ جانا چاہیے، ورنہ جو شخص خطیب کے منبر نشین ہونے کے بعد مسجد میں داخل ہوگا، فرشتے اس کا نام جمعہ ادا کرنے والوں کی فہرست میں شامل نہیں کریں گے اور وہ جمعہ کی نماز میں غیر حاضر اور فضیلت سے محروم رہے گا، نیز فرمایا کہ خطبہ پوری توجہ اور انہماک سے سنا جائے، دوران خطبہ کوئی معمولی سی حرکت یا بات بھی نہ کرے، جس سے کسی قسم کا خلل واقع ہو، حتیٰ کہ اگر کوئی دوسرا فضول یالغو حرکت کر رہا ہو تو اسے زبان سے منع بھی نہ کرے کہ کہیں کوئی تکرار اور بحث شروع نہ ہوجائے۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
یوں تو مسلمان مختلف کانفرنسوں ، جلسوں اور اجتماعات ِ وعظ و نصیحت کی محفلوں میں بے شمار خطبات، تاریخی واقعات و حکایات سنتے رہتے ہیں، لیکن اہمیت ، تاثیر اور اجر و ثواب کے اعتبار سے کوئی خطبہ یا تقریر خطبۂ جمعہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی ،کیوں کہ اس کی خصوصی اہمیت و فضیلت اور اس کی امتیازی شان و افادیت سے متعلق قرآن و حدیث میں بہت سارے احکامات موجود ہیں، مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت خطبۂ جمعہ کی اہمیت کو سمجھ ہی نہیں پاتی، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جمعہ کے دن مسجد اس وقت پہنچتی ہے، جب خطیب آدھا خطبہ پیش کر چکا ہوتا ہے یا خطبہ ختم کر رہا ہوتا ہے۔
خطبۂ جمعہ کی اہمیت و افادیت یہی ہے کہ اس میں مسلمانوں کو آئندہ ایک ہفتہ اپنی زندگی اللہ و رسولﷺ کے احکامات کے مطابق گزارنے کے لئے قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آگاہ کیا جاتا ہے، تا کہ وہ آئندہ جمعہ تک روزو شب ان کے مطابق گزاریں ، گویا کہ خطبہ جمعہ اسلامی ریاست و حکومت کا آئندہ ایک ہفتہ کے معمولات زندگی کا الہامی حکم نامہ ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ کا دورانیہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ ان سات دنوں ایک مسلمان کئی طرح کے حالات اور مسائل سے دوچار ہوتا ہے۔
اس کے سامنے خوشی اور غم کے مواقع بھی آتے ہیں۔ بیوی بچوں ، عزیز و اقارب، دوست احباب اور پاس پڑوس سے بھی اس کے معاملات اور تعلقات میں کئی طرح کا اتار چرھائو دیکھنے کو ملتا ہے۔ عملی زندگی میں اس کا واسطہ اس ہفتے میں جائز و ناجائز اشیاء سے بھی پڑتا ہے، جن میں وہ صحیح و درست رہنمائی پانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اپنی معاشرتی زندگی میں بعض حقوق و فرائض کے تعلق سے اسے کبھی کبھی شبہات لاحق ہوتے ہیں ۔ وہ چاہتا ہے کہ ان کا ازالہ ہوجائے۔
حصول رزق کے لئے پیشہ ورانہ زندگی گزارتے ہوئے بارہا اس کے سامنے یہ مرحلہ آتا ہے کہ ہماری یہ کمائی حلال ہے یا حرام ہے؟ بسا اوقات اس کے معاشرے میں بعض ایسے واقعات اور حادثات پیش آتے ہیں جن کے بارے میں وہ اسلام کی تعلیمات سے واقف ہونا چاہتا ہے اسی طرح ملکی اور عالمی سطح پر بعض ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
جن کا تعلق اسلام اور اہل اسلام سے ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہماری دینی قیادت اس سلسلے میں ہمیں روشنی دکھائے۔ اس کی اپنی ذہنی کیفیت بھی ان سات دنوں میں یکساں نہیں رہتی۔ کبھی تعلق باللہ اپنے نقطۂ عروج پر ہوتا ہے اور کبھی اس تعلق کو شیطانی وسوسے اور ابلیسی طاقتیں کمزور بنادیتی ہیں۔ کبھی فکر آخرت اس کے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے اور کبھی دنیا اور اس کی مصروفیات میں اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ اسے آخرت کی جواب دہی اور اس میں حساب کتاب کا خیال ہی نہیں آتا۔
ہفتے کے آغاز میں خطبۂ جمعہ کی جس ایمانی روشنی نے اس کے دل کو صیقل کیا تھا، ہفتے کے آخری دنوں میں اس پر زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ ان حالات و واقعات میں اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس زنگ کو دور کیا جائے اور اس کے دل کو ایمان کی روشنی سے صاف ستھرا بنا کر دوبارہ دینی اعتبار سے تازہ دم کر دیا جائے۔ ایک مسلمان کی ان تمام احتیاجات کی تکمیل جن وسائل و ذرائع سے ہوتی ہے ان میں سب سے مؤثراور آسان خطبات جمعہ ہی ہیں۔
ہمارے ہاں یعنی بر صغیر میں عربی کی عدم واقفیت کی بناء پر خطبۂ جمعہ کی یہ افادیت اور اثر پذیری صفراور بالکل بے معنی و سعیِ لاحاصل ہو جاتی ہے ،چناںچہ جنوبی ایشیاء وہ خطہ ہے جو غیر عر بی یا عجمی ہونے کی بناء پر عربی دانی میں سب سے پیچھے تھا، لہٰذا اس خطے میں سو ، ڈیرھ سو سال قبل یہ طریقہ اختیارکیا گیا کہ قرآن وحدیث کے جو احکام عربی خطبہ میں پڑھے جائیں عوام الناس کے سمجھنے کی غرض سے وہ احکام اردو یا کسی بھی مقامی زبان میں جمعہ کی پہلی اذان کے بعد اور دوسری اذان سے قبل وعظ و نصیحت کے انداز میں بیان کر دیے جائیں، تا کہ لوگوں کو ان احکامات قرآن و حدیث کو سمجھ کر عمل کرنے کی آسانی ہو۔
یہ جمعہ کے دن اردو خطبہ یا بیان کی مختصر تاریخ و توجیہہ ہے لیکن امت کی یہ بڑی بد نصیبی ہے کہ فقہی اختلافات نے دنیا کے خطوں میں خطبات جمعہ کو بے معنی اور بے مقصد بنادیا ہے اور اب عربی خطبہ کے ساتھ اردو بیان بھی محض ایک رسم بن کر رہ گیا ہے، ’’رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالی نا رہی‘‘ آج کل جمعہ کی تقریروں ، وعظ و نصیحت اور خطبوں کا آپس میں کہیں کوئی ربط نظر نہیں آتا۔
جن تقریروں سے قوم کو دینی ، معاشرتی اور اخلاقی طور پر بیدار کیا جانا تھا، ان تقریروں اور وعظ و نصیحت نے اپنا ایک ایسا رخ اپنالیا جس میں انتشار اور نفرتیں پروان چڑھنے لگیں۔ مسجدوں کا بٹوارہ ہوگیا۔ معاشرتی مسائل ہمارا موضوع نہیں ہوتے۔ انہیں وعظ کے موضوع میں اہمیت نہیں دی جاتی، شہری شعور بھی ہمارے خطبہ جمعہ کا عنوان نہیں ہوتے۔ مسجد کے اردگرد بسنے والے لوگ کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔
ہمارے خطیب اور واعظ اس سے نا واقف ہیں۔ کسی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں باہمی تعاون کی اہمیت و افادیت بھی ہماری تقریروں کا موضوع ہونے کا تقاضا کرتی ہیں، ملک میں امن و امان قائم رہے، اس کے لئے اپنے علاقے میں باہمی اخوت و مساوات قائم کرنے کی تدبیریں ہمارے وعظ و نصیحت کے مکالمے کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔
اسلام میں مسجد سب سے اہم ادارہ اور صاحبانِ محراب و منبر سب سے اہم ذمہ داری کا عہدہ ہے۔ اجتماعی ناکامی کی ذمہ داری کسی ایک پر ڈالنا اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا ہے۔ دوسری طرف نماز جمعہ اور خطبات جمعہ کے تعلق سے عام و خاص مسلمانوں کی کمزوریاں اور کوتاہیاں افسوس ناک ہیں۔ ہمیں کاروبار حیات نے اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ بہت سے بد قسمت مسلمان ایسے بھی ہیں کہ جو اپنے گھروں میں موجود ہونے کے باوجود نماز جمعہ ترک کر دیتے ہیں اور جو نماز جمعہ میں شریک ہوتے ہیں ان کی اکثریت عین وقت پر بھاگتے ہوئے ہانپتے کانپتے مسجد آتی ہے اور کسی طرح ’’مارے بندھے‘‘ دو رکعت پڑھ کر واپس گھروں کی طرف دوڑتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آج خطیب نے کیا کہا اور اسلام کی کن تعلیمات پر گفتگو کی۔
بعض ایسے بدنصیب بھی ہوتے ہیں کہ ان کی توجہ خطیب کے خطبہ اور بیان پر ہونے کے بجائے گھر اور دکان پر ہوتی ہے اور وہ خطبۂ جمعہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ مسجد کے آداب کا پاس و لحاظ بھی خال خال ہی نظر آتا ہے۔ دوران خطبہ اونگھنا اور جمائیاں لینا ایک معمول بن چکا ہے۔
اس طرح کی کمزوریاں اور غفلت یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہمیں اپنی آخرت و عاقبت کی قطعاً کوئی فکرنہیں اورہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہی دنیا سب کچھ ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنی دنیا کی زندگی بھی سنوار نے کی کوئی فکر نہیں۔ سوچنے، سمجھنے ،غور کرنے اور عبرت حاصل کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایک مومن کی یہی شان ہوا کرتی ہے ۔ ’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘۔