ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے، اور انہی پہلوؤں میں سے ایک اہم موضوع ’’وراثت‘‘ کا ہے۔ اسلام نے وراثت کی تقسیم کا ایک منصفانہ اور جامع نظام وضع کیا ہے، تاکہ مرنے والے کے قریبی رشتے داروں کو ان کا حق ملے اور معاشرتی انصاف قائم رہے۔ قرآن و حدیث میں وراثت کے احکامات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے، اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا غفلت کو منع کیا گیا ہے۔
وراثت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے اصول نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ وراثت ایک ایسا حق ہے جو مرنے والے کے مال و جائیداد کو اس کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کرنے کے بارے میں وضاحت فراہم کرتا ہے، تاکہ کوئی محروم نہ ہو اور عدل و انصاف قائم ہو۔ وراثت کا نظام معاشرتی استحکام اور خاندانوں کے درمیان امن و محبت کو فروغ دیتا ہے۔
اسلام نے ہر شخص کو اس کے جائز حق کی ضمانت دی ہے، اور کسی بھی وارث کا حق مارنے یا تقسیم میں ناانصافی کرنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ وراثت کا منصفانہ نظام رشتے داروں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
قرآن مجید میں وراثت کے احکامات سورۃ النساء میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وراثت کی تقسیم کے لیے مختلف اصول وضع کیے ہیں تاکہ معاشرے میں انصاف اور توازن قائم ہو۔ وراثت کے احکامات میں والدین، اولاد، شریک حیات، اور دیگر قریبی رشتے داروں کے حقوق کا ذکر ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا: "اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے، اور اگر (مرنے والے کی) صرف بیٹیاں ہوں، دو یا زیادہ، تو انہیں مال کا دو تہائی ملے گا۔"(سورۃ النساء: 11)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کی تقسیم کے اصول واضح کر دیے ہیں، جن کے مطابق بیٹیوں اور بیٹوں دونوں کو حصہ دیا جائے گا۔ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہیں اور ان میں کوئی کمی بیشی کرنا جائز نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ نے بھی وراثت کے حقوق اور تقسیم کے اصولوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت ہے کہ وہ شدید بیمار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ حضرت سعد ؓنے عرض کیا کہ وہ اپنا سارا مال خیرات کرنا چاہتے ہیں، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس بات سے منع کیا اور فرمایا:"ایک تہائی سے زیادہ مال خیرات نہ کرو اور وہ بھی زیادہ ہے۔"(صحیح بخاری)اس حدیث میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ وراثت کے حق دار افراد کو ان کا حصہ دیا جائے اور وصیت کے ذریعے صرف ایک تہائی مال کو کسی اور مقصد کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ شادی کے اخراجات کو بہانہ بنا کر بیٹیوں یا بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن شریعت میں یہ عمل ناجائز ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، شادی کے اخراجات والدین اور والد کی وفات کی صورت میں بھائیوں کی ذمہ داری میں شامل ہیں ۔ شادی پر خرچ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وراثت کا حق ختم ہو جائے گا۔ قرآن و حدیث میں وراثت کے حقوق کو ہر حالت میں محفوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشادربانی ہے"اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔"(سورۃ النساء: 11)بیٹیوں اور بہنوں کا وراثت میں حق شریعت کا حصہ ہے اور اسے کسی بھی وجہ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی وراثت کے قوانین میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے کے لیے کچھ اہم اصول ہیں:
1. قریبی رشتے داروں کا حق: سب سے پہلے قریبی رشتہ داروں کا حق متعین کیا جاتا ہے، جیسا کہ والدین، اولاد اور شریک حیات۔
2. مرد اور عورت کا حصہ: بیٹے اور بیٹی دونوں کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے، البتہ مرد کا حصہ دوگنا ہوتا ہے کیونکہ مرد کو خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانی ہوتی ہے۔
3. وصیت کا حق: مرنے والا شخص اپنے مال کا ایک تہائی حصہ وصیت کے طور پر کسی بھی مقصد کے لیے مخصوص کر سکتا ہے، لیکن باقی مال وارثین میں شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
4. یتیموں اور کمزوروں کا تحفظ: اسلام نے خاص طور پر یتیموں اور کمزور افراد کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیا ہے تاکہ ان کے حقوق ضائع نہ ہوں۔
اسلامی معاشرت میں وراثت کی تقسیم کا ایک بنیادی مقصد عدل و انصاف کو فروغ دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:"یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حدود ہیں، اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا، اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا۔"(سورۃالنساء: 13)
غور فرمائیں اللہ تعالیٰ وراثت کو " حدود" قرار دیا ہے آج کس طرح وراثت کی تقسیم میں لیت ولعل سے کام لیتے ہیں، کیسے کیسے بہانے بناتے اور کیسے کیسے عذر تراشتے ہیں، اگر مکان بیچ کر وراثت تقسیم کی گئی تو ہمارے بچوں کے سر سے چھت چھن جائے گی، ہم کہاں جائیں گے؟ کیسے اور کہاں سے کھائیں گے؟ یہ سارے شیطانی وسوسے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " بے شک شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بری باتوں کا حکم دیتا ہے۔
قرآن کا حکم یہ نہیں کہ مالدار ہو تو وراثت تقسیم کرو،غریب ہو تو خود قابض ہوجاو ٔ،قرآن تو کہتا ہے کم ہو یا زیادہ،اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم کردو۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اولاد میں سے جو بیٹا باپ کے ساتھ کاروبار کررہا ہوتا ہے، باپ کی وفات کے بعد وہی کاروبار پر قابض ہوجاتا ہے، کہیں خواتین تمام جائیداد کی مالک بن جاتی ہیں جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ وہاں اپنا قبضہ پکا کرلیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں وراثت کی تقسیم میں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی وراثت کی شرعی تقسیم کی بات کر دے تو خاندان ٹوٹنے اور بھائی بہن میں ہمیشہ کے لئے افتراق اور رشتہ ختم ہونے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی حدود سے ٹکرانے کے مترادف ہیں۔
زمانہ جاہلیت کی مثالیں آج بھی ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہیں کہ جس طرح اس جاہلی معاشرے میں وراثت کے حقدار صرف وہ جوان ہوتے تھے تو طاقت ور ہوتے، میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاسکتے، بوڑھے بچے اور خاص طور پر عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا۔ آج بھی یہی ہورہا ہے۔
صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا "جو شخص ظلم و زیادتی کرتے ہوئے کسی کی ایک بالشت بھر حصہ بھی غصب کرلے گا تو کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات زمینوں کا طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دے گا۔ وراثت کے اصول اللہ کے مقرر کردہ ہیں اور ان پر عمل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ کسی وارث کا حق مارنا یا تقسیم میں کمی بیشی کرنا بڑا گناہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔"(سنن ابوداؤد)اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"جو شخص کسی وارث کو اس کا حق دینے سے روکے گا، اللہ قیامت کے دن اسے جنت سے محروم کرے گا۔"(ابن ماجہ)
معلوم ہوا کہ اسلامی نظامِ وراثت ایک منصفانہ اور کامل نظام ہے، جو ہر وارث کو اس کا حق پہنچانے کی ضمانت دیتا ہے۔ شادی یا دیگر اخراجات وراثت کا متبادل نہیں بن سکتے اور نہ ہی یہ وراثت کے حق کو ختم کرتے ہیں۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں وراثت کے اصولوں پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ،تاکہ معاشرت میں انصاف قائم رہے اور اللہ کی رضا حاصل ہو۔ وراثت میں کسی قسم کی ناانصافی نہ صرف دنیاوی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، بلکہ آخرت میں بھی سخت عذاب کاباعث ہوگی۔