• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریعت کے مطابق فیصلہ کروانے سے انکار کرنے والے کے بارے میں حکم

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: اس مسئلے کے بارے میں مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے درمیان کوئی تنازعہ ہوجائے تو جب فیصلے کا وقت آئے تو ان میں سے ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ میں شریعت پر فیصلہ نہیں کروں گا، مجھے اپنے رواج پر فیصلہ کرنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آدمی کافر ہوجائے گا یا نہیں؟ کیوں کہ قرآن مجید میں اللّہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:﴿فَلَاوَرَبِّكَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِيْ مَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجاً ... الآية‘‘۔

اسی طرح جب ایک منافق اور یہودی کے درمیان آپ ﷺ نے فیصلہ کیا تو منافق اس پر راضی نہیں تھا تو اس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس فیصلے کو لے چلتے ہیں، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے توآپ نے کہا کہ جسے حضور اکرم ﷺ کا فیصلہ منظور نہ ہو تو اس کے لیے میرا فیصلہ یہ ہے ،تلوار نکالی اور منافق کو قتل کر ڈالا۔ مذکورہ شخص کیا اس کے ضمن میں آسکتا ہے؟براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں!

جواب: شریعت کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا کفر ہے، لیکن اس میں تفصیل ہے، یعنی اگر کوئی شخص دل سے شریعت کے قانون کو معاملاتِ زندگی میں فیصلہ کن تسلیم نہیں کرتا یا وہ شریعت کے مطابق فیصلہ ہونے کے بعد اس شرعی فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے یا شریعت کو غیر مفید اور نامکمل سمجھ کر انکار کررہا ہو تو ایسا شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص دل سے شریعت کے قانون کو تسلیم تو کرتا ہے مگر اس پر فیصلہ کرنے سے گزیر کرتا ہے تو ایسا شخص سخت گناہ گار تو ہوگا، لیکن کافر نہیں ہوگا۔

اسی طرح اگر قاضی یا حکم/ثالث کی جہالت یا ظلم کی وجہ سے ان کے پاس شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے سے انکار کررہا ہے، یا اس کا مقصد شریعت کے فیصلے سے انکار نہ ہو، بلکہ کسی خاص مسئلے میں وہ صلح کے طور پر خاندانی رواج کے مطابق فیصلہ کرواتا ہے اور وہ فیصلہ شرعی نصوص کے خلاف بھی نہیں ہے تو یہ بھی کفر نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ " میں شریعت پر فیصلہ نہیں کروں گا، مجھے اپنے رواج پر فیصلہ کرنا ہے" اس میں ابہام ہے اور مختلف احتمالات ہیں ، ان احتمالات کے ہوتے ہوئے مذکورہ شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا، البتہ اس طرح کے جملے کہنا خطرناک ہے، اس سے اندیشۂ کفر رہتا ہے، لہٰذا اس طرح کے جملوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور احتیاطاً تجدیدِ ایمان بھی کرلینا چاہیے۔

سوال میں ذکر کردہ آیت کی تفسیر میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:"اگر یہ شبہ ہو کہ ظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دوسرے قانون کی طرف اسے باطل سمجھ کر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، وہ مسلمان نہیں حالاں کہ حرام کام کا مرتکب ، جب کہ اعتقادِ حلت نہ رکھتا ہو مومن ہے گو فاسق ہو، اسی طرح اگر کسی کے دل میں شرعی فیصلے سے تنگی پیدا ہو، مگر وہ اس فیصلے کو حق سمجھے تو وہ بھی مسلمان نہ ہونا چاہیے ،حالاں کہ تنگی پر انسان کا اختیار نہیں اور غیر اختیارات کا مکلف نہیں ، اسی طرح اگر کوئی اس فیصلے پر عمل نہ کرے تو یہ بھی عدمِ تسلیم ہے تو وہ بھی مسلمان نہ رہے، حالاں کہ ترکِ عمل سے ایمان نہیں جاتا ؟

ان شبہات کا جواب یہ ہے کہ تحکیم اور عدمِ حرج اور تسلیم کے مراتب تین ہیں: (1)اعتقاد سے (2) اور زبان سے (3) اور عمل سے۔

اعتقاد سے یہ کہ قانون شریعت کو حق اور موضوع للتحکیم جانتا ہے اور اس میں مرتبہ عقل میں ضیق نہیں اور اسی مرتبہ میں اس کو تسلیم کرتا ہے۔ زبان سے یہ کہ ان امور کا اقرار کرتا ہو کہ حق اسی طرح ہے۔ عمل سے یہ کہ مقدمہ لے بھی جاتا ہے اور طبعی ضیق بھی نہیں اور اس فیصلہ کے موافق کاروائی بھی کرلی۔

سو اول مرتبہ تصدیق و ایمان کا ہے اس کانہ ہونا عنداللہ کفر ہے اور منافقین میں خود اسی کی کمی تھی چناں چہ تنگی کے ساتھ لفظِ انکار اسی کی توضیح کے لیے ظاہر کردیا ہے ۔اور دوسرا مرتبہ اقرار کا ہے اس کا نہ ہونا عندالناس کفر ہے ۔تیسرامرتبہ تقویٰ وصلاح کا ہے اس کانہ ہونافسق ہے اور طبعی تنگی معاف ہے۔ پس آیت میں بقرینہ ذکر منافقین مرتبہ اول مراد ہے۔ اب کوئی اشکال نہیں "۔ (تفسیربیان القرآن، 1/375، مکتبہ رحمانیہ)

لہٰذا مذکورہ آیت میں شریعت کے مطابق فیصلے کودل سے اور اعتقاداً نہ ماننا مراد ہےاور یہ کفر ہے۔ لہٰذا مذکورہ شخص کے جملے میں درج بالا احتمالات کے ہوتے ہوئے اسے اس آیت کے ضمن میں شامل نہیں کیا جائے گا۔