لندن (پی اے) حکومت نے انگلینڈ میں جون سے ڈسپوزیبل ویپ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈسپوزیبل ویپ پر پابندی لگانے کا اعلان گزشتہ سال جنوری میں کیا گیا تھا لیکن سابقہ حکومت نے عام انتخابات تک اس فیصلے کو نافذ نہیں کیا تھا، اس پابندی کا مقصد ماحول کو آلودگی سے بچانا اور بچوں کی صحت کا تحفظ کرنا بتایا گیا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں بھی اسی طرح کی پابندی عائد کردی جائے گی۔ ویپنگ انڈسٹری کے قائدین نے متنبہ کیا ہے کہ اس پابندی کے نتیجے میں ڈسپوزیبل ویپ کی غیرقانونی فروخت میں اضافہ ہوجائے گا۔ ڈسپوزیبل ویپ کی ری سائیکلنگ مشکل ہوتی ہے، اس لئے وہ عام طورپر کچرہ جمع کرنے والے گڑھوں میں ڈال دی جاتی ہیں، جہاں ان کی بیٹری لیک ہو کر ماحول میں آلودگی پیدا کرتی ہیں، کچرے میں پھینکی جانے والی بیٹریوں کے سبب ہر سال کچرہ لے جانے والی گاڑیوں میں آتشزدگی کے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔ ماحولیات، فوڈ اور دیہی امور کے محکمے کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ہر ہفتہ ایک دفعہ استعمال کی جانے والی کم وبیش 5ملین ویپس استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں، 2022میں پھینکی جانے والی ویپس میں مجموعی طورپر 40ٹن لیتھیم موجود تھی، جس سے کم وبیش 5,000الیکٹرک بائیکس چلائی جاسکتی تھیں معیشت میں کچرے کو کم کرنے سے متعلق امور کی وزیر میری کریغ نے کہا ہے کہ ڈسپوزیبل ویپس ہمارے شہروں اور قصبوں کیلئے بہت نقصاندہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اب ہم اپنی قوم کا استعمال کرو اور پھینک دو کا کلچر ختم کرنا چاہتے ہیں اور سرکلر معیشت کی جانب ہمارا یہ پہلا قدم ہے۔حالیہ برسوں کے دوران سگریٹ نوشی نہ کرنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں ویپنگ شروع کردی تھی، جن میں اکثریت کم عمر نوجوانوں کی تھی۔ پبلک ہیلتھ کے وزیر اینڈریو Gwynne کا کہنا ہے کہ آج ڈسپوزیبل ویپ بچوں کی اکثریت کی مقبول شے بن چکی ہے، اس پر پابندی سے بچے اور کمزور نوجوان اس سے محفوظ ہوجائیں گے لیکن برطانیہ میں ویپنگ انڈسٹری کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ اس پر پابندی سے بلیک مارکیٹ کے کاروبار کو عروج ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ ویپ کی بلیک مارکیٹ پہلے ہی سے موجود ہے اور اس پابندی سے اسے مزید عروج ملے گا۔ حکومت نے اگلے سال یکم جون سے ڈسپوزیبل ویپ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور ریٹیلرز کو اس وقت تک اپنے بقیہ اسٹاک کو ختم کرنے کا وقت دے دیا ہے۔ اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی حکومتوں نے بھی اسی طرح کی پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔