’’جناب! ہم اگلے دو گھنٹوں میں مر جائیں گے!‘‘
یہ ایک تیس سالہ شخص کے الفاظ تھے جو چند ماہ قبل اپنی بیوی اور پانچ سالہ بیٹی کے ہمراہ میرے دوست سے اُس کے دفتر میں ملنے آیا تھا۔ میرا دوست ایک اردو اخبار میں کالم نگار ہے، یہ الفاظ سن کر اُس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی ۔
’’کیوں ، کیا ہوا ؟ کیسے مر جاؤ گے ؟‘‘ میرے دوست نے حیرت سے جواباًسوال کیا ۔
’’کیونکہ ہم نے پچھلے دو دنوں سے کچھ نہیں کھایا، ہماری بچی نے صبح سے دودھ نہیں پیا، ہمارے پاس اِس کیلئے پیسے نہیں ہیں، اس لیے ہم سب نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اُس شخص نے اتنی پرسکون آواز میں کہا جیسے وہ خودکشی کی نہیں بلکہ اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیوں پر جانے کی اطلاع دے رہا ہو ۔
’’اچانک ایسی کیا بات ہوگئی، چند ماہ پہلے تک تو تمہارے حالات بالکل ٹھیک ٹھاک تھے؟‘‘ میرے دوست نے پوچھا۔ اُس کی حیرت کم ہونے میں نہیں آرہی تھی کیونکہ وہ اس شخص کو کئی برسوں سے جانتا تھا، وہ ایک کمپنی میں ماہانہ ستّر اسّی ہزار تنخواہ پر کام کرتا تھا، تاہم چند ماہ قبل کمپنی نے لاہور میں اپنا دفتر بند کر دیا تھا جس کے نتیجے میں اُس کی ملازمت چلی گئی تھی۔ اگلے تین مہینے اس کیلئے بےحد مشکل ثابت ہوئے، اُس نے ہر ممکن کوشش کی لیکن بری طرح ناکام رہا اور بالآخر اب آخری حربے کے طور پر وہ مدد مانگنے کیلئے میرے دوست کے پاس آیا تھا۔ یہ خوفناک تفصیلات سننے کے بعد، میرے دوست نے پہلے تو اُن کیلئے کھانا اور بچی کیلئے دودھ کا ڈبہ منگوایا اور پھر اُن کی دادرسی کیلئے وعدہ کیا کہ وہ اِس واقعے پر کالم لکھے گا تاکہ کوئی مخیر اور اللہ کا نیک بندہ اُن کی مدد کرے۔ یہ جوڑا امید کی کرن اور بچا ہوا کھانا اور دودھ لے کرچلا گیا۔
اگلے دن کالم شائع ہوا۔ چونکہ میرے دوست نے بہت متاثرکُن انداز میں یہ روداد بیان کی تھی سو بہت سے لوگوں نے مثبت جواب دیا۔ تین دنوں میں قارئین کے عطیات کے ذریعے پانچ لاکھ روپے کی رقم جمع ہوئی جو فوری طور پر اُس ضرورت مند میاں بیوی کو پہنچا دی گئی۔ انہوں نے میرے دوست کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ یہ رقم ان کی پریشانیوں کو ختم کرنے کیلئے کافی ہوگی، وہ کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کریں گے اور اپنی آمدن کا مستقل ذریعہ بنا لیں گے۔ تاہم کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ گزشتہ روز وہ ضرورت مند جوڑا دوبارہ میرے دوست سے ملنے آیا، اِس مرتبہ وہ لوگ دفتر کی بجائے گھر پہنچے۔ میرے دوست نے سوچا کہ شاید وہ اپنے کاروبار کی کامیابی کی کہانی بتانے آئے ہیں لیکن وہ حیران رہ گیا جب اُس شخص نے کہا کہ ”سر، کیا آپ ہمیں پانچ سو روپے ادھار دے سکتے ہیں، ہمارے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں۔“ یہ سننا تھا کہ میرے دوست کا پارہ آسمان کو چھونے لگا۔ ’’دیکھو نوجوان، تم نے پانچ لاکھ روپے مانگے تھے جو میں نے اپنے قارئین سے اپیل کر کے تمہیں دے دیے۔ تمہیں اُس رقم کا دانشمندی سے استعمال کرنا چاہیے تھا جو کہ تم نے نہیں کیا۔ کوئی کام کرنے کے بجائے تم نے وہ رقم الم غلم اشیا خریدنے اور موبائل فون تبدیل کرنے میں ضائع کر دی۔ اب میں کسی بھی صورت میں تمہاری مدد کرنے یا دوبارہ کالم لکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، مجھے معاف کر دو۔‘‘ میاں بیوی کی بار بار منت سماجت کے باوجود میرا دوست ٹس سے مس نہیں ہوا، انہیں دروازہ دکھا کر اُس نے کہا کہ’’براہ کرم اس مقصد کیلئے دوبارہ میرے پاس نہ آئیں‘‘۔ میاں بیوی نہایت بد مزاجی سے رخصت ہوئے۔
میرے دوست نے یہ پورا واقعہ ابھی مجھے سنایا ہے اور تب سے اُس کاموڈ کافی خراب ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ شکر گزار ہونے کے بجائے یہ لوگ اب اسے دنیا کا سب سے ظالم شخص سمجھیں گے کیونکہ اُس نے انہیں پانچ سو روپے نہیں دیے۔’’اور یقین کرو کہ انہوں نے مجھے یہاں تک کہا کہ پہلے بھی میں نے کچھ نہیں کیا تھا، بلکہ یہ تو دوسرے لوگ تھے جنہوں نے کالم پڑھنے کے بعد پانچ لاکھ کے عطیات دیے تھے۔‘‘ میں نے اپنے دوست کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر اُس کا غصہ کم نہیں ہوا۔ میں نے اسے حضرت علی ؓ کا قول سنایا کہ جس پر احسان کرو اُس کے شر سے بچو۔ بجائے احسان مند ہونے کے ہم کوئی چھوٹی سی بات دل میں رکھ کر اپنے محسن کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ میرے دوست نے اپنے مدیر کو بڑی مشکل سے اُس کالم کو شائع کرنے پر راضی کیا تھا کیونکہ اخبار کی پالیسی نہیں تھی کہ وہ انفرادی طور پر مدد کی اپیلیں شائع کرے، اُس نے ایک معروف فلاحی تنظیم کا فون نمبر اور بینک اکاؤنٹ دیا تاکہ شفاف طریقے سے عطیات اکٹھے ہوسکیں اور یوں بدقت تمام وہ رقم اُس غریب جوڑے کو پہنچائی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ عطیات انہوں نے دو ماہ سے بھی کم عرصے میں اُڑا دیے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے قارئین اِس بارے میں کیا سوچیں گے لیکن میں اپنے دوست سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اگر اس نے دس لاکھ بھی اکٹھے کیے ہوتے تو وہ دو کی بجائے چھ ماہ بعد ختم ہوجاتے اور وہ جوڑا اسی طرح بدمزاجی سے میرے دوست کو برابھلا کہتا ہوا رخصت ہوتا کہ آپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ شاید ہماری قوم ہی ایسی ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ یہ انسانی نفسیات ہے۔ مشہور لکھاری ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب ’’پریشان ہونا چھوڑیے، جینا شروع کیجیے‘‘ میں ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے کہ اُس نے درجنوں بے گناہ لوگوں کو جیل سے رہائی دلوائی مگر سوائے اکادکا لوگوں کے کسی نے اُس کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ، مگر خیال رہے کہ اس تحریر کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ درد مند لوگ ضرورت مندوں کی مدد نہ کریں، یہ دنیا دردمندی کی وجہ سے ہی قائم ہے ورنہ انسان تو ایک دوسرے کو کچا چبا جاتے۔