ڈاکٹر ساجد خاکوانی
ﷲ تعالیٰ نے کل انسانیت کو آدم علیہ السلام کی نسل سے جنم دے کر پہلے دن سے ہی سماجی انصاف کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسی بات کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا : ترجمہ: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد وعورت دنیا میں پھیلا دئیے۔‘‘(سورۃالنساء: ۱)
اور اسی سماجی انصاف کو محسنِ انسانیت ﷺنے اپنے آخری خطبے میں یوں بیان کردیا کہ تم سب ایک آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے، پس کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ، سوائے تقویٰ کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ: ’’لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں ، تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو، درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوتمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گارہے ،یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے۔‘‘(سورۃ الحجرات:۱۳)
مذاہب کی تقسیم میں بھی ﷲ تعالیٰ نے کسی طرح کی تفریق سے کام نہیں لیا اور اپنی آخری کتاب میں برملا اعلان کر دیا:ترجمہ: ’’بے شک، ایمان والے ہوں، یایہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی،جو کوئی بھی ﷲ تعالیٰ پراور روزِ آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا،اس کااجر اس کے رب کے پاس محفوظ ہے اور اس کے لیے کچھ خوف اور غم نہیں ۔‘‘(سورۃالبقرہ:۶۲)
ﷲ تعالیٰ کی ایک صفتِ ازلی ’’عدل‘‘ہے اور وہ رب کل کائنات کے ساتھ عدل کرنے والا ہے، چنانچہ انسانی معاشرے میں بھی مہلتِ عمل کے آغاز یعنی پیدائش تک اس عادلِ مطلق نے عدل کو انتہائی حد تک انسان کے اندر دخیل کیا ہے۔ بظاہر ایک طرف سے محرومی ہے تو دوسری طرف سے اس کا بہترین اِزالہ کر دیا، جیسے بینائی سے محروم کیا تو بے پناہ حافظہ عطا کردیا، ذہنی صلاحیتیں کم تر ملیں تو جسمانی وجود کو قوت و طاقت سے بھر دیا، رنگت اور شکل و صورت میں مقابلۃً کمی بیشی کا شکار ہوا تو خاندانی وجاہت سے اس کمی کو پورا کر دیا، علیٰ ہٰذاالقیاس، غرض قدرت کے ہاں سے کل انسان ایک عدلِ اجتماعی کا مجسم پیکر بن کر اس دنیا میں بھیجے گئے۔
انبیائے کرام علیہم السلام نے جو تعلیمات انسانیت تک پہنچائیں ، ان میں سماجی عدلِ اجتماعی کو ایک لحاظ سے مرکزی حیثیت رہی۔ محسنِ انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے چھوٹے (طبقے کے لوگ) جرم کرتے تو اُنہیں سزا دی جاتی اور جب ان کے بڑے (طبقے کے لوگ) جرائم کرتے تو اُنہیں چھوڑ دیا جاتا۔ جہاں جہاں انسانوں کے اس مقدس ترین طبقے کو اقتدار میسر آیا تو انہوں نے انسانوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کیا اور ظلم و جور سے انسانی معاشروں کو پاک صاف کرتے چلے گئے۔
خاص طورپر محسنِ انسانیت ﷺ نے جس معاشرے کی بنیاد رکھی اورصحابۂ کرامؓ نے خلفائے راشدینؓ کی قیادت میں اسے تشکیل دیا، اس معاشرے کا تو خاصہ ہی سماجی عدل و انصاف ہے۔ نماز کے اندرپہلے آئیے، پہلے پائیے کی بنیاد پر جگہ ملتی ہے۔ بس جو پہلے آئے گا، وہ مقرب ومعززجگہ پر مقام پائے گا اور جودیر سے پہنچے گا،وہ پچھلی صفوں میں کھڑا ہوگا۔ اسی طرح روزے میں بھی معاشرے کے سب طبقات اور تمام افراد کے لیے ایک ہی وقت پر روزہ شروع ہوتاہے اور ایک ہی وقت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
عدلِ اجتماعی کی ایک اور تاریخ ساز اور عہد آفریں مثال مناسکِ حج ہیں، جن میں صدہا سالوں سے ربِّ ذوالجلال کے گھر میں سب چھوٹے کلیۃً معاشرتی عدل کے پیمانوں کے مطابق مراسمِ عبودیت ادا کرتے ہیں ۔ سیاست کے میدان میں محض اہلیت کی بنیاد پر سب طبقات کے سب افراد کے لیے کل مناصب کے دروازے کھلے ہیں ۔ معیشت کے میدان میں حرا م و حلال سب کے لیے برابر ہیں، معاشرت کے میدان میں صرف تقویٰ ہی معیارِ عزت و توقیر ہے، وغیرہ۔
زکوٰۃ و صدقات سے سماجی انصاف کا قیام تو اظہر من الشمس ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کم ہونے سے سماجی انصاف کی منزل بہت قریب آن لگتی ہے۔ آدھی رات کو امیرالمومنین حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے گھر کا دروازہ بجا تو سونے کی اشرفیوں سے منہ تک بھرا تھیلا پکڑے ہوئے شخص نے چارسو میل دور کا علاقہ بتاتے ہوئے کہاکہ وہاں سے یہ مالِ زکوٰۃ ساتھ لایا ہوں، قبول فرمائیں۔ امیرالمومنین نے کہا : اللہ کے نیک بندے! کہیں بانٹ دیاہوتا، مجھے دینے کے لیے یہاں کیوں پہنچ گیا ہے؟ آنے والے نے جواب دیا کہ خداکی قسم، سارے راستے آواز لگاتا رہا ہوں ، لوگو! مالِ زکوۃ ہے ،کوئی تو لے لو، لیکن اتنے طویل سفر میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملا۔
زکوٰۃ و صدقات کی فراوانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی یہ تکمیل ہے کہ آدھی رات کو بھی حکمران کے دروازے پر کوئی دربان و نگران نہ تھا، چارسومیل تک نہ صرف یہ کہ کوئی چور ڈاکو نہ ملا، بلکہ کوئی مستحقِ زکوٰۃ بھی نہ تھااور دیانت داری کایہ عالم کہ صاحبِ نصاب نے وہ مال واپس بھی لے جانا مناسب خیال نہ کیا اور بیت المال میں جمع کرادیا۔
خلافتِ راشدہ میں نبی مہربانﷺ کی تعلیمات اپنے بامِ عروج پر نظر آئیں۔ خلفائے راشدینؓ نے جس طرح کاسماجی عدل کا نظام عالمِ انسانیت کے سامنے پیش کیا، ویسااس آسمان نے پہلے کبھی دیکھا اور نہ ہی شاید تاقیامت دیکھ پائے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ پہلے تو ماہانہ مشاہرہ لینے پر آمادہ نہ ہوئے، شورائیت کے نتیجے میں صرف اتناوظیفہ قبول کیا جو ایک مزدور کی آمدن کے برابر تھا اور دمِ آخریں یہ وصیت کر گئے کہ جتناکچھ وظیفہ کل دورِ خلافت میں وصول کیا، ترکے میں سے پہلے اس کی ادائیگی کی جائے اور پھر باقی ماندہ جائیداد تقسیم کی جائے۔
حضرت عمر فاروق ؓکا دورِحکومت کل مؤرخین نے سنہرے حروف سے لکھاہے، جب روم جیسی سلطنت کا سفیر یہ کہنے پر مجبورہوا کہ تمہارا حکمران عدل و انصاف کرتاہے اور بے غم سوتاہے، جبکہ ہمارے حکمران ظلم و ستم کرتے ہیں اور خوف زدہ رہتے ہیں ۔ حضرت عثمان بن عفان ؓنے دنیا بھر کی تاریخ کی واحد مثال پیش کی کہ شہادت تو قبول کرلی، لیکن سرکاری اَفواج تک کو اپنی ذاتی حفاظت پر مامور نہ کیا، حالانکہ آپ وقت کے حکمران تھے۔ شیرِخدا حضرت علیؓ جس تھان سے اپنے لیے کپڑا کٹواتے، اسی تھان سے اپنے غلاموں کے لیے بھی کپڑے کٹواتے تھے، لوگ آقااورغلام کو ایک ہی طرح کے کپڑوں میں دیکھ کر ششدر رہ جاتے۔
صرف تاریخِ اسلام نے ہی سماجی عدل و انصاف کو اپنے معاشروں میں جگہ دی کہ مسلمانوں کے عروج سے قبل اور مسلمانوں کے زوال کے بعد پھر ایسی مثالیں انسانوں کے ہاں پیش نہ کی جاسکیں ۔ کل انسانی تاریخ میں صرف مسلمانوں کے دورِ اقتدارمیں ہی ہندوستان میں خاندانِ غلاماں اور مصر میں مملوک خاندان کے لوگ برسرِاقتدار آئے اور اس زمین کے سینے پر پہلی بار غلاموں کو اقتدارکے تخت پر براجمان دیکھا۔
ہندوستان میں خاندانِ غلاماں کے بادشاہان دراصل منڈی میں خریدے گئے غلام تھے اور اپنی قابلیت و اہلیت کی بنیاد پر سیاست کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے اور جب ایک بادشاہ اس دنیا سے رختِ سفر باندھ چکتا تو اس کی اولاد کو بادشاہ بنانے کی بجائے عمائدین سلطنت کسی اہل تر فرد کو یہ منصب پیش کرتے، اور یوں یہ سلسلہ آگے بڑھ جاتا۔
سلطان محمود غزنویؒ کو ایک شہری نے شکایت کی کہ رات گئے ایک فرد زبردستی اس کے گھر میں گھس کر اس کی بیوی سے زیادتی کرتا ہے، بادشاہ نے کہا کہ اب جیسے ہی وہ تمہارے گھر آئے، مجھے بلالینا، رات گئے بادشاہ اس شخص کے ساتھ اس کے گھرمیں دیوار پھلانگ کر داخل ہوا، کمرے میں داخل ہوکر پہلے چراغ گل کیا، پھر اس کا سر قلم کردیا اور گھر والے سے کہا: فوراً مجھے پانی پلاؤ! اور پھر اس کی شکل دیکھ کر شکر الحمد ﷲ! کہا۔ گھروالے نے پوچھا: آپ گھر میں دیوار پھلانگ کر کیوں داخل ہوئے؟ بادشاہ نے کہا: دروازے کے راستے کمرے تک پہنچنے میں تاخیر ہوجاتی اور ممکن تھا کہ دروازے سے کھٹکا سن کر وہ فرار ہوجاتا۔ گھروالے نے پوچھا چراغ کیوں بجھایا؟ سلطان محمودغزنویؒ نے جواب دیا: مجھے شک تھا، شاید یہ میرا بیٹا ہوگا، جس کے دماغ میں شہزادگی کا خمار اُسے اس بدمستی پر اُبھارتا ہو، روشنی میں شکل پہچان جانے سے انصاف کے درمیان شفقت پدری حائل ہو جاتی۔
گھر والے نے پوچھا: فوراً پانی کیوں مانگا؟ بادشاہ نے جواب دیا: جب سے تم نے ظلم کی شکایت کی تھی، میں نے انصاف کی فراہمی تک اپنے آپ پر کھانا پینا حرام کر رکھا تھا اور آخر میں اس نے پوچھا : آپ نے شکر الحمدﷲ! کیوں کہا؟ تو بادشاہ نے کہا: وہ بدمعاش میرا بیٹا نہ تھا، اس پر میں نے ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دورِ اقتدار اس طرح کی بے شمار مثالوں سے بھرا پڑا ہے، حتیٰ کہ فی زمانہ جب کل دنیا میں یہودیوں ، عیسائیوں، ہندؤوں اور سیکولر افواج کے ہاتھوں مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں، تب بھی کسی مسلمان ملک میں ان اقلیتوں پر انتقاماً دست درازی نہیں کی گئی۔
اس سے بھی کہیں زیادہ شاندار مثال حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ کی ہے۔ مسلمان افواج نے بغیر کسی اطلاع کے آرمینیا فتح کرلیا۔ وہاں کے پادری نے ایک خط امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو لکھا کہ آپ کی افواج نے اسلام کی دعوت اور جزیہ پر آمادگی کی پیشکش کیے بغیر ہمارے شہر پر یلغار کرکے قبضہ کرلیا ہے۔ ہرکارہ جب دارالخلافہ میں وارد ہوا تو آدھی دنیا کا حکمران اپنے گھر کی دیوار پر گارے کی لپائی کررہا تھا۔ خط پڑھ کر سیڑھی پر کھڑے کھڑے کاغذ کی پشت پر اسلامی فوج کے کمانڈر کے نام حکم نامہ لکھ دیا کہ فوج میں سے کسی عالم دین کو قاضی بناکر اس معاملے کا فیصلہ کرو۔
خط ملتے ہی قاضی تعینات کردیاگیا، اس نے زوالِ آفتاب کے وقت فریقین کو طلب کرلیا اور پادری کے حق میں فیصلہ سناکر سپہ سالار کو حکم دیا کہ غروبِ آفتاب سے قبل تمام سپاہیوں سے شہر خالی کروادیا جائے۔ سب سے آخرمیں نکلنے والا فرد وہ قاضی تھا جو سختی سے نگرانی کررہا تھا کہ شہر خالی کرنے والے کسی سپاہی کے ہاتھوں کسی مقامی پرزیادتی نہ ہو۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ افواجِ اسلامی آرمینیا کی بستی خالی کررہی تھیں اور شہری ان کی چادریں پکڑ پکڑ کر کھینچ رہے تھے کہ تم ہی یہاں رہو اور حکومت کرو، کیونکہ ہمارے حکمران توہم پر ظلم کرتے ہیں۔
اسپین پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی۔ یہاں پر مسیحی ملت ہمیشہ اکثریت میں رہی، ایک موقع پر شاہِ فرانس نے مسلم اسپین پر حملہ کرنا چاہا تو اس نے یہاں کے ہم مذہب عیسائیوں پادریوں کو خط لکھا کہ میں باہر سے حملہ کروں گا، تم اندر سے میرا ساتھ دینا۔ تاریخ نگاروں نے لکھا ہے کہ مسیحی پادریوں نے اپنے ایک اجتماع میں یہ فیصلہ کرکے شاہِ فرانس کو خط میں جواب دیا کہ یہاں ہمیں مکمل معاشرتی، معاشی اور مذہبی آزادی میسر ہے اور ہمارے باہمی نزاعات کا فیصلہ بھی حکومت کی طرف سے مقررکردہ مسیحی قاضی ہی کرتا ہے، چنانچہ محض حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے ہم کسی کشت و خون میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے۔
مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور اس کرۂ ارض کے سینے پر سنہری الفاظ سے لکھا جانے والا دور ہے، جب از شرق تا غرب سماجی عدل کے تمام تقاضے بدرجہ اتم پورے کیے جارہے تھے۔ یہودیوں کی چار ہزار سالہ تاریخ میں ان کے لیے جو بہترین وقت تھا اسلامی دورِحکومت میں ہی اُنہیں میسر آیا۔ حضرت داؤد اورحضرت سلیمان علیہما السلام کے بعد ان کی اپنی دو ریاستوں اسرائیل اور یہودیہ میں جنگوں کا جو طویل سلسلہ چلا اور ان میں جو بے پناہ خون جو بہایا گیا، اس کی مثال بھی شاید مشکل ہو، لیکن بنی اسرائیل کے لیے اپنی تاریخ کا بہترین وقت مشرق میں عباسیوں کا دورِ حکومت اور مغرب میں اُمویوں کا دورِ حکومت تھا، جب ان کی تجارت عروج پر تھی اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور طبی تربیت کے ادارے بھی ان یہودیوں کے زیرنگرانی چل رہے تھے اور انہیں دربارِ شاہی تک براہِ راست دسترس حاصل تھی۔
ایک ہزار سالہ مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں بڑی قوم نے چھوٹی قوموں کو سماجی و تعلیمی غلام نہیں بنایا تھا، ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے سیروں وزن کے کاغذ نہیں اُٹھانے پڑتے تھے، حکمرانوں اور عوام کا بودوباش ایک ہی تھا، دولت اور اقتدار چند ہاتھوں یا کچھ مخصوص خاندانوں تک محدود نہیں تھے۔
ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کے باوجود آج کے سیکولرازم سے کہیں بہتر حالات تھے، جھوٹی شہرت بازی (پروپیگنڈا) قوموں اور حکومتوں کو بلیک میل کرنے کا رواج نہیں تھا، بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر عالمی منڈی میں اقوام کی خرید و فروخت کے بازار کہیں نہیں لگتے تھے، تعلیم اور علاج کے نام پر کاروبار نہیں چمکائے جاتے تھے۔ یہ سب سیکولر تہذیب، سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت اور مغربی نظامِ جمہوریت کے مکروہ نتائج ہیں ، جن کے باعث مسلمانوں کے قائم کردہ سماجی انصاف والے معاشروں کی جگہ آج پوری دنیاکے دریاؤں میں از شرق تا غرب پانی کی جگہ انسانی خون بہہ رہا ہے۔
صلیبی جنگوں وسقوطِ قرطبہ سے آج تک دامنِ صلیب انسانی خون سے رنگا رنگ ہے۔ یہودیوں نے تو انبیاء علیہم السلام جیسی ہستیوں کے بھی قتل سے دریغ نہ کیاتو باقی عدل و انصاف کے تقاضے وہ کہاں سے پورے کریں گے؟! جب کہ سیکولرازم توان سب سے بازی لے گیاہے، جس نے بدترین اخلاقی و علمی بددیانتی سے ان مذاہب کے عمدہ ترین تصورات کو چوری کر کے اپنے نام سے منسوب کر لیاہے اور کذب و نفاق اور ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ الأمان و الحفیظ۔
پس اب توتاریخِ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق بات کی نصیحت کی اور صبر کی تلقین کی۔ سماجی انصاف صرف ایک ہی صورت میں اس عالمِ انسانیت کا مقد ربن سکتاہے ،جب قرآن و سنت کے اقتدار کا سورج مشرق سے طلوع ہوگا اور وہ وقت اب قریب ہی آن لگا ہے، ان شاء ﷲ تعالیٰ!