• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُمتِ مسلمہ کیلئے موجودہ حالات میں اللہ کی طرف رُجوع اور توبہ و استغفار کی ضرورت و اہمیت

مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو ممکن ہے تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں پہنچادے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جس دن اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) کو اور ان اہل ایمان کو جوان کے ساتھ ایمان لائے، بےتوقیر نہ کرے گا۔ ان کا نوران کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے۔

یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۃ التحریم ) انسانی فطرت و جبلت کی بنیاد نسیان و عصیان پر استوار کی گئی ہے، لیکن مسلم اور غیرمسلم انسان میں بنیادی فرق ہے۔ عام انسان خطا وعصیان پر دائمی استوار رہ سکتا ہے الاّ یہ کہ اللہ رب العالمین اسے ہدایت سے سرفراز فرمادے اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہو کر اپنی سابقہ روش ترک کر کے اسلامی اصول و ضوابط پر کار بند رہ کر باقی زندگی مرضیات ربانی کے مطابق گزاردے۔

مندرجہ بالا آیت کریمہ میں انہی اوصاف کے حامل اہل ایمان کا تذکرہ کیا گیا کہ گناہ کا ارتکاب ہر ایک سےمکن ہے لیکن مومن کا شعار یہ ہے کہ جب اس سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فورأ اپنے رب سے رجوع کرتا ہے اور ندامت کے آنسو بہا کر اپنے رب کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ رب اتناشفیق و مہربان ہے کہ سچی توبہ کرنے والے سے انتہائی خوش ہوتا ہے اور اللہ توبہ سے کس قدر خوش ہوتا ہے ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اس کی تمثیل بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اپنے توبہ کرنے والے بندوں پر اس قدر خوش ہوتا ہے جس طرح مسافر اونٹنی پرسوار ہوکر چٹیل میدان سے گزرا اور آرام کرنےکے لئے کسی درخت کے سائے میں سو گیا اور مال و اسباب سے لدی اونٹنی درخت سے باندھ دی لیکن جب جاگتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی اونٹنی لاپتہ ہوگئی وہ اس کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے لیکن کوئی پتہ نہیں چلتا اور وہ بھوک و پیاس کی شدت سے مرنے کے قریب ہو گیا اور ہر طرح سے عاجز و مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے پڑ گیا کہ بس اب میں یہیں مر جاؤں گا۔ 

اس پریشانی میں جب سوکر جاگتا ہے تو کیا دیکھتاہے کہ اس کی اونٹنی مع سازوسامان کے اس کے پاس کھڑی ہے تو یہ فوراً اٹھ بیٹھتا ہے اور اس کی نکیل پکڑ لیتا ہے اور اس قدر خوش ہوتا ہے کہ خوشی میں بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے اے اللہ بے شک تو میرا غلام ہے اور میں تیرا پروردگار! خوشی کے مارے ایسا کلمہ اس کی زبان سے نکل جاتا ہے تو الله تعالی توبہ کرنے والے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے ( بخاری ومسلم) توبہ کی توفیق طلب کرنا اور اپنے گناہوں پر شرمندگی محسوس کرنا مومن کا شعار ہے۔ 

گناہ کا ارتکاب ہو جانا بڑی بات نہیں، بلکہ اس پر فخر اور مداومت کرنا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور وہ قدم قدم پرغلطیاں کرتا رہتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر ایک گناہ ہو گیا تو پھر دوسرا کر لیا اور اسی طرح کرتا چلا گیا یہاں تک کہ رب کے حضور پہنچ گیا اور توبہ کی توفیق میسر ہی نہ آ سکی۔ 

ایسے شقی القلب لوگ جو اپنے گناہوں پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اس کی تباہ کاریوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے، بالآ خر وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانیاں اور خلق اللہ پر جوروستم روار کھتے ہوئے بغیر توبہ کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں یا جب جاں کنی کا وقت آجائے، تب توبہ کرنے لگ جاتے ہیں، جیسا کہ فرعون نے کہا کہ جب وہ موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کرتا ہوا دریائے نیل پر پہنچا تو الله تبارک و تعالی نے اپنے کلیم اور ان کی امت کے لئے دریا میں راستہ بنا دیا اور قوم پار لگ گئی۔ 

فرعون نے جب دریا میں راستہ دیکھا تو وہ بھی پیچھے پیچھے اپنی سپاہ کے ہمراہ تعاقب کرتا ہوا چلا آیا، لیکن جب درمیان میں پہنچا تو فرشتوں کو اللہ کا حکم ہوا کہ دونوں پانیوں کو ملادیں ،فرعون اور اس کا لشکر غرق آب ہوا اس موقع پرفرعون ڈبکیاں کھانے لگا تو قرآن مجید نے اس موقع کی عجیب منظر کشی کی ہے۔ فرعون اپنے آپ کو موت سے ہمکنار ہوتا دیکھ کر بے اختیار بول اٹھا۔ 

ترجمہ: نہیں ہے کوئی الہٰ مگر وہی جسے رب مانا بنی اسرائیل نے اور میں اسلام لانے والوں میں سے ہوں ۔ ( کہا گیا ) اب ایمان لاتا ہے اور اس سے قبل (ساری زندگی ) نافرمانی کرتا رہا اور فساد پھیلاتا رہا اس وقت بھی براہ راست اللہ کا اقرار نہیں کیا بلکہ بنی اسرائیل کا حوالہ دیا، لہٰذا اللہ کا حکم آیا کہ اب تیری توبہ قبول نہیں۔ (سورۂ یونس) معلوم ہوا کہ توبہ کا دروازہ جان کنی کے وقت بند ہو جاتاہے البتہ اگر ساری زندگی بھی گناہ کرتا رہا، لیکن شرک سے بچارہا اور آخری وقت کے آنے سے قبل تائب ہو گیا تو یقیناً بخش دیا جائے گا۔ 

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:اللہ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کے کوئی گناہ کر گزریں پھر جلد ہی اس سے باز آجائیں اور توبہ کریں تو اللہ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ الله تعالیٰ بڑا علم والاحکم والا ہے۔ (البتہ) ان کی توبہ کی قبولیت کا وعدہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی اسی طرح ان کی توبہ بھی کوئی توبہ نئیں جو کفرہی پر مرجائیں۔ یہی تو لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔ ( سورۃ النساء ) 

معلوم ہوا کہ توبہ موت سے قبل تک قبول ہوتی ہے، البتہ موت کو سامنے دیکھ کر توبہ کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اسی طرح جو لوگ ساری زندگی کفر و شرک پر رہتے ہیں اور آخری لمحات میں اپنے گناہوں پر قائم رہتے ہوئے توبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی توبہ بھی توبہ نہیں، البتہ ایمان لے آئیں اور اپنے عقیدہ کی اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر الله اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانیاں عام نظر آتی ہیں جب دین سے تعلق ختم ہو جاتا ہے تو پھر انسان مادر پدر آزاد ہوکر معاشرے کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے اور بدیہی طور پر منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شخص دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چوری ڈکیتی عام ہو جاتی ہے۔ زنا شراب جوا اور دیگر جرائم روز افزوں ترقی کرتے چلے جاتے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور انسان دنیا اور اس کی رنگینیوں اور عیش وعشرت کوہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔

’’کورونا وائرس‘‘ ایک عالمی وبا کی شکل میں تقریباً دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، آج پوری دنیا مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہے، موت کا خوف سروں پر ہے، زندگی معطل ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سچی توبہ کرنے اور اپنی مرضیات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، تا کہ جنت کا حصول ممکن ہو۔( آمین)