• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: چھ ماہ قبل میرا نکاح ہوا، نکاح سے قبل سسرال والوں کی طرف سے کچھ شرائط طے ہوئیں، حق مہر کے حوالے سے معاملات طے ہوئے۔ نکاح نامے میں موجود شق 18میں طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیاجاتا ہے، تفویضِ طلاق کے بارے میں نکاح کے وقت دلہا اور گواہوں کو کچھ نہیں بتایا گیا، نکاح کے وقت دلہا کے پھوپھا ہارٹ اٹیک کے سبب فوت ہوگئے، عجلت میں نکاح کیا گیا، مجھے اور گواہوں کو نکاح نامہ پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا، نکاح خواں نے فارم اپنے پاس رکھ لیا کہ رجسٹرڈ کرواکر دیں گے۔

بعد میں ہم نے دیکھا کہ نکاح نامے میں تفویضِ طلاق کے کالم میں ’’جی ہاں‘ ‘ لکھا ہوا ہے، نکاح خواں نے مجلسِ نکاح میں بھی تفویضِ طلاق کی کوئی بات نہیں کی۔ بعد میں بیوی نے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ایک اسٹامپ پیپر پر شوہر کی جانب سے خود کو تین طلاقیں دیں اور اپنے والدین کے گھر چلی گئی جبکہ شوہر نے کوئی طلاق نہیں دی، کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی ہے؟( طاہر ، اسلام آباد)

جواب: بیوی کو تفویضِ طلاق کا حق محض نکاح نامے پر کالم پُر کردینے سے حاصل نہیں ہوگا، بلکہ شوہر یہ حق بیوی کو تفویض کرے گا ،تب حاصل ہوگا، خواہ ایجاب وقبول کو تفویضِ طلاق کے ساتھ مشروط کرے یا ایجاب وقبول یعنی نکاح منعقد ہونے کے بعد اُسی وقت یا بعد میں کسی بھی وقت بیوی کو اپنے آپ کو طلاق دینے کا مُطلَق (Absolute)اختیار دے ، اس کے لیے کُتُب فقہ وفتاویٰ میں’’ کُلَّمَا اور مَہْمَا ‘‘کے کلمات آئے ہیں ، یعنی بیوی کویوں کہے کہ آپ جب کبھی بھی چاہیں اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہیں۔ 

اگر شوہر اپنی بیوی سے یہ کہے:’’ تو جب چاہے یا جب کبھی چاہے یا جس وقت چاہے یا جس وقت بھی چاہے، اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے ،تو یہ تفویضِ طلاق دائمی اور غیر مُوَقَّت ہوگا، جب تک وہ اس کے نکاح میں ہے، اس حق کو استعمال کرسکتی ہے، شوہر نہ تو اس حق کو واپس لے سکتا ہے اور نہ ہی باطل کرسکتا ہے۔

آپ نے سوا ل میں لکھا ہے کہ ’’تفویضِ طلاق کے بارے میں نکاح کے وقت دلہا اور گواہوں کو کچھ نہیں بتایا گیا، بعد میں ہم نے دیکھا کہ نکاح نامے میں کالم ۱۸ میں ’’جی ہاں ‘‘ لکھا ہوا ہے ‘‘۔ یہ تفویضِ طلاق درست نہیں کیونکہ جو عورت ابھی عقد ِنکاح میں آئی ہی نہیں اور شوہر کو خود اُس پر طلاق کا حق حاصل ہوا ہی نہیں، تو اس کی تفویض طلاق (Delegation of the Power's of  Talaq) کے کیا معنی؟، یہ تحریر شرعاً مؤثر نہیں نہیں ہے، محض شوہر کے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے یہ تفویضِ طلاق مؤثر نہیں ہوگی۔

تاہم مہر کے تعین کے ساتھ ایجاب وقبول کرلیا گیا ہے ،تو نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، علامہ نظام الدین لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ ایک شخص نے ایک عورت سے اس شرط پر نکاح کیا کہ: اسے طلاق ہے یا اسے خود کو طلاق دینے کا اختیار ہے،‘‘ تو امام محمد ؒ نے ’’الجامع‘‘میں فرمایا ہے: نکاح جائز ہے اور طلاق باطل ہے اور اس صورت میں اس عورت کے لیے خود کو طلاق دینے کا اختیار حاصل نہیں رہے گا اور فقیہ ابواللیث ؒ نے (امام محمدؒ کے اس قول کی تشریح کرتے ہوئے ) فرمایا کہ یہ (یعنی طلاق اور خیار نفس کا غیر مؤثر ہونا) تب ہے، جب شوہر کی جانب سے ایجاب میں پہل ہو اور وہ یوں کہے کہ: میں نے اس شرط پر تجھ سے نکاح کیا کہ تجھے طلاق ہے اور اگر (صورت حال یہ ہوکہ) عورت کی جانب سے ایجاب میں پہل ہو اور وہ کلمات ایجاب یوں ادا کرے کہ:’’ میں نے اس شرط پر اتنے مہر کے عوض تجھ سے اپنا نکاح کیا کہ مجھے طلاق ہے،یا یہ کہ مجھے اپنے نفس کاخیار رہے گا کہ میں جب کبھی بھی چاہوں اپنے آپ کو طلاق دے دوں، اور شوہر نے جواباً کہا: اس شرط کے ساتھ مجھے نکاح قبول ہے، تو یہ نکاح جائز ہوگا اور پہلی صورت میں طلاق فوراً واقع ہوجائے گی اور دوسری صورت میں عورت کو خود کو طلاق دینے کا اختیار حاصل رہے گا،(فتاویٰ عالمگیری، جلد نمبر 1،ص: 273)‘‘۔

لہٰذا اگر آپ کا بیان درست ہے کہ نکاح خواں نے آپ کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر نکاح نامے میں تفویضِ طلاق کے کالم کو پُر کیا اور نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد بیوی کو شوہر کی جانب سے طلاق کا حق تفویض نہیں کیا گیا ،تو یہ تفویضِ طلاق غیر مؤثر ہے اور خاتون بدستور آپ کے نکاح میں ہے۔ ( واللہ اعلم بالصواب)

اقراء سے مزید