کراچی(رپورٹ/اختر علی اختر)’’بابوجی نے کہا گاؤں چھوڑدو، سب نے کہا پارو کو چھوڑ دو، اور پارو نے کہا شراب چھوڑدو۔ ایک دن آئیگا، جب وہ کہیں گے دُنیا ہی چھوڑ دو‘‘۔ دیوداس کے یہ ناقابل فراموش ڈائیلاگز نے فلم کی رنگینیوں میں اضافہ کیا۔100سال قبل لکھا گیا ناوِل ’’دیوداس‘‘فلم سازوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ برصغیر میں اس ناوِل پر اب تک مختلف زبانوں میں دو درجن کے قریب فلمیں بن چکی ہیں، کچھ باکس آفس پر سپرہٹ ثابت ہوئیں ۔دلیپ کمار،کے ایل سہگل،شاہ رُخ خان اور پاکستانی اداکار حبیب سمیت دیگر نے دیوداس کا مرکزی کردار نبھایا۔ ’’پارو‘‘کے روپ میں اداکارہ شمیم آراء،ایشوریا رائے اور سچتراسین سمیت دیگر ہیروئنوں کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔ ’’چندر مُکھی‘‘ کے کردار میں ڈانس کوئین مادھوری ڈِکشت،وجنتی مالا اور نیر سلطانہ نے خُوب رنگ جمایا۔ تفصیلات کے مطابق ’’دیوداس‘‘ ایک ڈراما اور رومانس سے بھرپور ناوِل ہے ، جسے بنگالی ناوِل نگار شرت چندر نے صرف 17برس کی عمر میں تخلیق کیا تھا۔ یہ پہلی بار 30جون 1917ء کو کتابی شکل میں شایع ہوا۔ اب تک اس ناوِل پر ہندی،اردو،بنگلہ اور دیگر زبانوں پر مبنی دو درجن کے قریب فلمیں بنائی جاچکی ہیں، جن میں سے چند نے باکس آفس پر مقبولیت کے کئی ریکارڈز بریک کیے۔ ناوِل ’’دیوداس‘‘ پر سب سے پہلے 1928ء میں خاموش فلم بنائی گئی، بعدازاں اس ناوِل پر فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1955ء میں ہدایت کار بمل رائے کی ڈائریکشن میں بننے والی ’’دیوداس‘‘ نے ہر طرف دھوم مچادی تھی، اس فلم میں برصغیر کے صفِ اول کے فنکار دلیپ کمار نے ’’دیو‘‘ کا لیڈنگ رول شاندار انداز میں پرفارم کیا تھا، جبکہ ’’پارو‘‘ کے روپ میں سچتراسین اور چندر مُکھی کے کردار میں وجنتی مالا کو فلم بینوں نے بے حد سراہا۔ اس فلم کے گیت بھی بے حد مقبول ہوئے ۔ اس فلم میں شامل گیت ’’جسے تو قبول کرلے وہ ادا کہاں سے لاؤں‘‘ آج بھی دلچسپی سے سُنا جاتا ہے۔ بعدازاں 1965ء میں پاکستان کے معروف ہدایتکار خواجہ سرفراز نے اپنے انداز سے ’’دیوداس‘‘ بنائی۔ پاکستان کے نامور اداکار حبیب نے دیوداس بن کر فلم بینوں کے دل جیتے ، جبکہ شمیم آراء، ’’پارو‘‘ کے روپ میں اور وجنتی مالا نے ’’چندر مُکھی‘‘ کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ دلیپ کمار کی دیوداس کے 47برس بعد بالی ووڈ کے صفِ اول کے ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی نے 2002ء میں دِلکش رنگوں کے ساتھ ’’دیوداس‘‘ بنائی جو اُس وقت کی مہنگی ترین فلم کہلائی گئی۔ اس فلم میں بالی ووڈ کے کنگ خان شاہ رُخ نے ’’دیو ‘‘ کے لیڈنگ رول میں جاندار کردار نگاری کی ، جسے آج 22برس گزرجانے کے باوجود بھی پسند کیا جاتا ہے۔ بھارتی فلموں کی خُوبصورت اداکارہ ایشوریا رائے،پارو کے کردار میں بے حد پسند کی گئیں، جبکہ رقص کی کوئین مادھوری ڈِکشت نے ’’چندر مُکھی‘‘ کے کردار میں بھرپور توجہ حاصل کی۔ اس فلم کے ڈائیلاگز اور گیت بے حد مقبول ہوئے۔ فلم میں شامل ایک گیت ’’کاہے چھیڑے موہے‘‘میں مادھوری ڈِکشت نے 50کلو وزنی لباس زیب تن کیا تھا، جس کی تیاری میں لاکھوں روپے خرچ ہوئے تھے۔ مادھوری ڈِکشت نے تین ماہ کی حاملہ ہونے کے باوجود تمام گانوں کی فلم بندی میں جان لگادی۔ سنجے لیلا بھنسالی اور شاہ رُخ کی دیوداس نے 11فلم فیئر ایوارڈز اپنے نام کیے تھے۔ مذکورہ فلموں کی بے انتہاء پسندیدگی کے بعد ’’دیوداس ‘‘ ایک کردار ہی نہیں رہا، بلکہ طرزِ زندگی بن کر سامنے آیا۔ عام طورپر اگر کسی کو،کسی سے عشق ہوجائے تو دوست احباب طنزیہ کہتے ہیں ’’بڑا دیوداس بنا پِھرتا ہے‘‘۔