انصار عباسی
اسلام آباد: کسی بھی ممکنہ بریک تھروُ کیلئے حکومت کی ایک اہم شخصیت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہائی لیول رابطہ ہوا ہے۔
ایک باخبر ذریعے نے پیر کو دی نیوز کو بتایا کہ ابتدائی رابطہ مثبت تھا۔ اس نمائندے کے پاس دونوں فریقین کی جانب سے رابطہ قائم کرنے والے افراد کے نام موجود ہیں لیکن دی نیوز کو یہ معلومات اس شرط پر فراہم کی گئی ہیں کہ نام خفیہ رکھے جائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ اِس وقت ان ناموں کا انکشاف پی ٹی آئی اور حکومت (بالخصوص اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کی کوششوں کو بیکار کر سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق، حکومت کی یہ اہم شخصیت مقتدر حلقوں کو اعتماد میں لے گی اور اگر معاملات مثبت انداز میں آگے بڑھتے ہیں تو پی ٹی آئی اپنے مطالبات پورے کرنے کی کچھ یقین دہانیوں کے عوض 24؍ نومبر کے احتجاجی مارچ کی کال واپس لے سکتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ منگل کو ہونے والا اپیکس کمیٹی کا اجلاس اس بات کا تعین کرنے کیلئے بیحد اہم ثابت ہو سکتا ہے کہ دونوں فریق بات چیت کریں گے یا پھر کشیدگی جاری رہے گی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور پہلے ہی دی نیوز کو بتا چکے ہیں کہ وہ اپیکس کمیٹی میں عمران خان، پی ٹی آئی اور پارٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری کشیدگی کا معاملہ اٹھائیں گے۔
اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وزیراعظم کرتے ہیں۔ یہ کمیٹی ملک کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت پر مشتمل ہے۔ لہٰذا، گنڈا پور کے پاس موقع ہوگا کہ وہ براہِ راست آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور تمام انٹیلی جنس سربراہوں سمیت اعلیٰ عسکری قیادت کے سامنے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائی جانے والی رنجشوں پر بات کریں۔
کہا جاتا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا فیصلہ ہونے کی صورت میں بات چیت پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہوگی۔ ممکن ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس بات چیت کا حصہ نہ ہو لیکن پی ٹی آئی سے متعلق معاملات میں حکومتی مذاکرات کاروں کو کسی بھی بات پر اتفاق سے پہلے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی منظوری درکار ہوگی۔
ایک ذریعے کے مطابق، پی ٹی آئی کے رہنما عوام میں چاہے کچھ بھی کہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بات چیت کی صورت میں ان کے مطالبات فوری طور پر پورے نہیں ہوں گے۔ فی الحال بات چیت کا عمل شروع ہونا ایک بڑی پیشرفت ہو سکتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مذاکراتی عمل کا آغاز، پی ٹی آئی کو 24؍ نومبر کو اسلام آباد تک اپنا احتجاجی مارچ واپس لینے پر قائل کر سکتا ہے۔ پارٹی نے اعلان کر رکھا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام آباد میں بڑا شو کرے گی۔
پارٹی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی مشکلات اور سیاسی نتائج سے تھک چکی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر بھی یہ بحث جاری ہے کہ اسے ادارے اور اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانا بند کرنا چاہئے کیونکہ اس اقدام سے ماضی میں فائدہ ہوا اور نہ آئندہ اس سے کچھ حاصل ہوگا۔