اسلام آباد ( اسرار خان)پی آئی اے کی خریداری کےلیے سرمایہ کارو ں کے تقاضے پر بیوروکریٹک پیچیدگیوں کی وجہ سے حکومت پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے آئی ایم ایف سے 26 ارب روپے ٹیکس چھوٹ مانگے گی، نئے طیاروں کی شمولیت پر جی ایس ٹی سے استثنیٰ بھی مطالبات میں شامل ہے، حکومت کو 45 ارب روپے کی منفی ایکویٹی سے بھی نمٹنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مالیاتی ڈھانچے کی منظوری ضروری ہے، ان خیالات کا اظہاروزیرنجکاری نے سینیٹ کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسکے ساتھ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (DISCOs) کی فروخت پر بھی کام جاری ہے۔ نومبر کے آخر تک مالیاتی مشیر کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔پہلے مرحلے میں آئیسکو، فیسکو، اور گیپکو کی فروخت پر توجہ دی جائے گی۔تفصیلات کے مطابق حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ پرکشش بنانے کے لیے 26 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کی منظوری انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے طلب کی ہے۔ یہ اقدام پی آئی اے کی نجکاری کی کوششوں میں ایک اور چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے، جہاں ٹیکس چھوٹ سرمایہ کاروں کے بڑے مطالبات میں سے ایک ہے۔نجکاری کے وزیر عبدالعلیم خان نے پیر کے روز ایک پارلیمانی پینل کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ پی آئی اے کی فروخت کی کامیابی کے لیے اہم ٹیکس چھوٹ اور مالیاتی ایڈجسٹمنٹ ضروری ہیں تاکہ اسے ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنایا جا سکے۔یہ انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس کے دوران کیا گیا، جس کی صدارت سینیٹر طلال چوہدری نے کی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سرمایہ کاروں کے بنیادی مطالبات میں نئے طیاروں کی شمولیت پر ایڈوانس جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) سے استثنیٰ شامل ہے، جو آپریشنل لاگت کو کم کرے گا اور پی آئی اے کی مالی حالت کو بہتر بنائے گا۔مزید برآں، حکومت کو 45 ارب روپے کی منفی ایکویٹی کے مسئلے سے نمٹنا ہوگا، جس میں پرانی مالی ذمہ داریوں کو ختم کر کے سرمایہ کاروں کے لیے مالی طور پر صاف ستھرا میدان فراہم کرنا شامل ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس چھوٹ اور مالیاتی ڈھانچے کی منظوری ضروری ہے، کیونکہ عالمی ادارے کی منظوری پاکستان کے وسیع اقتصادی فریم ورک پر اثر ڈالتی ہے جو اس کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (EFF) پروگرام کے تحت ہے۔سرمایہ کاروں کے تین بنیادی مطالبات میں 26 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ،10 ارب روپے کی برج فنانسنگ لاگت کو معاف کرنااور پی آئی اے کی 12 ارب روپے مالیت کی اسلام آباد کی جائیداد کی منتقلی شامل ہیں۔ وزیر عبدالعلیم خا ن کا کہنا ہے کہ "بطور بزنس مین، میں کہہ رہا ہوں کہ اس میں بہت صلاحیت ہے، لیکن حکومت کو دلیرانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔"وزیر نے ارنسٹ اینڈ ینگ (EY) کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے مشاورت فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مشیر کا انتخاب ایئرلائن انڈسٹری کے تجربے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔