نیویارک(تجزیہ :عظیم ایم میاں) امریکی ایوان نمائندگان کے 46 ارکان کی جانب سے صدر بائیڈن کے نام بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق لکھے گئے خط کا بڑا چرچا ہے۔بعض حلقے مذکورہ خط کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا حکم نامہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ امریکی نظام میں اختیارات کی تقسیم ‘ توازن اور روایات پر نظر رکھنے والےافراد اس خط کی عملی افادیت سے بخوبی واقف ہیں۔ خط کے بارے میں اس کا تناظر‘حقائق اور عملی پہلوؤں کا جاننا موثر نتیجہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا ۔ اول توصدر بائیڈن سے ایسے وقت میں درخواست کی گئی ہے جب انکے پاس سبکدوشی سے قبل اب محض چند دن رہ گئے ہیں اور ایک سبکدوش ہونے والے صدرکے طور پر ان کا امریکی داخلی ایجنڈا ہی خاص بڑا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو اتنی بڑی انتخابی شکست کے بعد صدر بائیڈن کو سبکدوش ہونے سے قبل امریکہ کی داخلی سیاسی اور اپنی پارٹی کی صورتحال کے تناظر میں بہت سے اقدامات کرنا ہیں لہٰذا اس خط کی عملی حقیقت اگلے چند دنوں میں سامنے آجائے گی۔خط کی عملی حقیقت جاننے کیلئے متعدد سوالات اور حقائق کا جاننا ضروی ہے۔ (1) 23؍اکتوبر2024 کو 60اراکین کانگریس کی جانب سے اسی نوعیت کا ایک خط صدر بائیڈن کے نام لکھا گیا جس میں بانی پی ٹی آئی اورپاکستان کی صورتحال کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ابھی تک اس خط کا صدر بائیڈن کی جانب سے کوئی ایکشن یا جواب نہ آنے کے باوجود 46 اراکین کانگریس کی جانب سے صدر بائیڈن مزید ایک اور خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟؟ اس سوال کا جواب امریکی ترجمان کے جواب میں ملتا ہے کہ مناسب وقت پر اس خط کا جواب دیا جائے گا‘ کیا صدر بائیڈن اپنی میعادکے چند دنوں میں اس خط کی حمایت کرتے ہوئے کوئی ایکشن لیں گے ؟ کیا صدر بائیڈن اپنی حکومت اور امریکی محکمہ خارجہ کے ڈونلڈ لو کے خلاف نفرت پھیلانے کی ملک گیر مہم اورپاکستانی عوام کو مستعل کرنے والے بانی پی ٹی آئی کے بیانات کو نظر انداز کردیں گے ؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ 15؍نومبر کے خط پر 60کی بجائے 46اراکین کانگریس کا خط کیا اس بات کا ترجمان نہیں کہ 15اراکین کانگریس کی کمی کا مطلب بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے حامی اراکین میں کمی آئی ہے کیوں ؟ اگر آپ ان 46اراکین کانگریس کی فہرست کا 60 کانگریس مینوں کے ناموں سے موازنہ کریں تو ناموں کی مماثلت بھی آپ کو بہت کچھ بتا اور سمجھا دے گی۔