• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں تفریحِ طبع اور جسمانی ورزش و کھیل کے مُتعلق احکام

ڈاکٹر نعمان نعیم

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائد، عبادات، معاشرت ومعاملات اوراخلاقیات وآداب کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہیں زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، زندہ دلی، خوش مزاجی اور تفریح کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے، بلکہ بعض اوقات بعض مفید کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔

اسلام میں پاکے بامقصد ورزش اور کھیل اور اس سے متعلق سرگرمیوں کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے، بلکہ ایسی ورزش اور کھیلوں کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح جسمانی اور غیرجسمانی قوت کے حصول کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو۔ (سورۃ الانفال: 60) اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے طالوت کو بنی اسرائیل میں بادشاہ بناکر مبعو ث فرمایا تو انہیں علم کے ساتھ جسمانی قوت بھی عطا فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔(سور ۂ بقرہ: 247)

نبی کریم ﷺ نے توانا وتندرست مومن کی تعریف فرمائی ہے: آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: کمزور مومن کے مقابلے   وتوانا مومن بہتر ہے اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔ (صحیح مسلم) حدیث میں ”قوت“ سے جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ ہمت، حوصلہ، شخصیت اور ارادہ بھی مراد ہے،تاکہ اس کے ذریعے بندہ عبادات اور جہاد کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔

اسلام کی اعتدال پسندی ہی کا یہ اثر ہے کہ رسول اللہﷺ اور اسلافِ امّت کی زندگیاں جہاں خوف وخشیت اور زہد وتقویٰ کا نمونہ ہیں، وہیں تفریح، خوش دلی اور کھیل کود کے پہلوؤں پر بھی بہترین اُسوہ ہیں۔ اسلام انسان کو ایک بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے اور کھیل وکود اور لہوولعب پرمشتمل زندگی کی مذمت کرتا ہے۔ 

بامقصد زندگی جس کی اساس ہمہ وقت اللہ کی خوشنودی کی جستجو، تعمیر آخرت کی فکر مندی اور لہولعب سے اِعراض ہو،وہ زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے اور جس کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و بے پروائی ہو، وہ کفار کا شعار ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (سورۃ المومنون:۳)

ہر وہ کام، قابلِ تعریف ہے،جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے۔ ہر اس کام کی اجازت ہے، جس میں دنیا وآخرت کا یقینی فائدہ ہو۔ یا کم از کم دنیا وآخرت کا خسارہ نہ ہو۔ کھیلوں میں سے بھی صرف اس کی اجازت ہے، جو جسمانی یا روحانی فوائد کا حامل ہو۔ وہ کھیل جو محض وقت کے ضیاع کا ذریعہ ہوں، فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوں، وہ کھیل جو دوسروں کے ساتھ دھوکا فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں، ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اصول شریعت کی روشنی میں مروّجہ کھیلوں میں مندرجہ ذیل کھیل مستحب اور پسندیدہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے بعض کی اہمیت وجوب تک پہنچ جاتی ہے۔ نشانہ بازی ،چاہے وہ تیر کے ذریعہ ہو یا نیزہ، بندوق اور پستول یا کسی اور ہتھیار کے ذریعہ۔ احادیث میں اس کے فضائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے سیکھنے کو باعثِ اجر وثواب قرار دیاگیا ہے، یوں کہ یہ کھیل انسان کے ذاتی دفاع اور ملکی دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔ 

یہ کھیل جہاں جسم کی پھرتی، اعصاب کی مضبوطی اور نظر کی تیزی کا ذریعہ ہے۔ وہیں یہ خاص حالات میں، مثلاً جہاد کے موقع پر دشمنوں سے مقابلہ آرائی کے کام آتا ہے۔ قرآن کریم میں باضابطہ مسلمانوں کو حکم دیاگیاہے: اے مسلمانو! تمہارے بس میں جتنی قوت ہو، اسے کافروں کے لیے تیار کرکے رکھو۔ (سورۃ الانفال)

گھڑسواری کا کھیل بھی اسلام کا پسندیدہ کھیل ہے، اس سے بھی جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت وجرأت اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور سفر میں اور جہاد میں بھی خوب کام آتا ہے، اگرچہ قرآن وحدیث میں عام طور پر گھوڑے کاذکر آیا ہے، مگر اس میں ہر وہ سواری مراد ہے، جو جہاد میں کام آسکے۔

جہاد کے اس اعلیٰ مقصد کے پیش نظر جو شخص گھوڑا پالے اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑے باندھ کر رکھے، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے، توسواری کے اس جانور کا کام قیامت کے دن اس شخص کے نامہٴ اعمال میں نیکی کے طور پر شمار ہوگا۔ (بخاری، مشکوٰۃ)

اپنی صحت اور توانائی کے مطابق، ہلکی یا تیز دوڑ بہترین جسمانی ورزش ہے۔ اس کی افادیت پر سارے علماء اور ڈاکٹر متفق ہیں۔ احادیث سے بھی اس کا جواز، بلکہ استحباب مفہوم ہوتا ہے۔ رسولِ کریم ﷺکا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہوولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے: (۱) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ تفریح طبع کے کاموں میں مشغول ہونا(۲) اپنے گھوڑے سدھانا (۳) دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا (۴) تیراکی سیکھنا سکھانا۔(کنزالعمال ۱۵/۲۱۱، الجامع الصغیر۵/۲۳)

پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہٴ کرامؓ عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔حضرت بلال بن سعدؒ کہتے ہیں کہ میں نے صحابہٴ کرامؓ کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے ۔ (مشکوٰۃ)

پیدل دوڑ میں مثالی شہرت رکھنے والے صحابی حضرت سلمہ بن الاکوعؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستے میں کہنے لگا، ہے کوئی؟ جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے، ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟ سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو۔ 

وہ پلٹ کر کہنے لگا ہاں! رسول اللہ ﷺ کے علاوہ مجھے کسی کی پروا نہیں۔ میں نے یہ معاملہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان سے دوڑ لگاؤں۔ آپ ﷺ نےفرمایا، ٹھیک ہے، اگر تم چاہو، چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑلگائی اور جیت گیا۔ (صحیح مسلم)

حضرت عبداللہ بن عمرؓکا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ اور زبیربن العوامؓؓ میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیرؓ آگے نکل گئے، تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت عمرفاروقؓ آگے نکل گئے، توآپ نے وہی جملہ دہرایا: ربِ کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۲۴)

نیزہ بازی اور بھالا چلانا ایک مستحسن کھیل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم، میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا ،آپ میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ جب کہ کچھ حبشی نیزوں کے ساتھ مسجد کے باہر صحن میں نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ مجھے اپنی چادر سے چھپارہے تھے اور میں آپ کے کان اور کندھوں کے درمیان حبشیوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ (صحیح بخاری )

تیرنے کی مشق ایک بہترین اور مکمل جسمانی ورزش ہے، جس میں جسم کے تمام اعضا وجوارح کی بھرپور ورزش ہوتی ہے، یہاں تک کہ سانس کی بھی ورزش ہوتی ہے۔ سیلاب آنے کی صورت میں ایک ماہر تیراک انسانیت کی بہترین خدمت کرسکتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں عام طور پر قریب میں ندی نالے تالاب وغیرہ ہوتے ہیں اور ان میں ڈوبنے کے واقعات بھی عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے حادثاتی مواقع پر ماہر تیراک لوگوں کی جان بچانے کی کامیاب کوشش کرسکتا ہے۔

اس سے جہادی تربیت کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ کسی بھی جنگ میں ندی نالے، تالاب اور دریا کو عبور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ ایک طبعی امر ہے۔ آج کل کی جنگوں میں سمندر کی ناکہ بندی کو دفاعی نقطۂ نظر سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا تیراکی جہاں تفریحِ طبع اور جسمانی ورزش کا عمدہ ذریعہ ہے، وہیں بہت سے فوائد کا حامل بھی ہے۔ 

اسی لیے رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: مومن کا بہترین کھیل تیراکی ہے اور عورت کا بہترین کھیل سوت کاتنا۔ (کنزالعمال۱۵/۲۱۱) اسی لیے صحابہٴ کرامؓ نہ صرف یہ کہ تیراکی کے ماہر تھے،بلکہ بسا اوقات تیراکی کا مقابلہ بھی کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہم حالتِ احرام میں تھے کہ مجھ سے حضرت عمرؓ کہنے لگے آؤ! میں تمہارے ساتھ غوطہ لگانے کا مقابلہ کروں، دیکھیں ہم میں سے کس کی سانس لمبی ہے۔(عوارف المعارف للسہروردی)

کُشتی اورکبڈی میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ عرب کے ایک مشہور پہلوان رُکانہ نے رسول اللہ ﷺ سے کشتی ٹھہرائی، تو آپﷺ نے اسے کشتی میں بچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل) مذکورہ تمام کھیل چوں کہ احادیث وآثار سے ثابت ہیں، اس لیے ان کے جواز،بلکہ استحباب میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا، اور کبڈی کا حکم بھی کشتی کی طرح ہے۔

جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں صریح ممانعت کی گئی ہے، وہ سب ناجائز ہیں: جیسے نرد، شطرنج، کبوتربازی، اور جانوروں کو لڑانا۔ رسول اللہﷺ نے نرد یعنی چوسر کھیلنے سے سختی سے منع فرمایا: آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے نرد شیر کا کھیل کھیلا، تو گویا اس نے اپنے ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون سے رنگ لیے (مسلم، مشکوٰۃ) ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے نرد یعنی چوسر کھیلا ،اس نے اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی ۔(سنن ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا؛ تو فرمایا: شَیْطَانٌ یَتَّبِعُ شَیْطَانَةً ایک شیطان دوسرے شیطان کے پیچھے دوڑا جارہا ہے۔ (ابوداؤد)علامہ نوویؒ فرماتے ہیں کہ کبوتر پالنا انڈے یابچوں کے حصول کے لیے درست ہے، لیکن کبوتر بازی کرنا اگر جوے کے ساتھ ہو تو مکروہ ورنہ ناجائز ہے۔ (حاشیہ مشکوٰۃ)

رسول اللہ ﷺنے ہر طرح سے جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت فرمائی ہے، چاہے مرغوں کو لڑایا جائے یا بٹیر کو یا مینڈھے کو، جس کے لڑانے کا معاشرے میں عام رواج ہے، یا کسی اور جانور کو لڑایا جائے۔تاش بازی شرعی نقطۂ نظر سے ممنوع ہے، اس لیے کہ تاش عام طور پر باتصویر ہوا کرتے ہیں۔ تاش کھیلنا عام طور پر فاسق وفاجر لوگوں کا معمول ہے۔ 

بالعموم جوے اور قمار کی شمولیت ہوتی ہے۔ اس میں تفریح کی جگہ پرالٹا ذہنی تھکان ہوتی ہے۔ اگر جوے کے بغیر بھی کھیلاجائے، تو شطرنج کے حکم میں ہوکر مکروہ تحریمی کہلائے گا۔ بعض احادیث میں شطرنج کی ممانعت آئی ہے۔ جو مصلحت شطرنج کو منع کرنے میں ہے، وہی بات تاش کھیلنے میں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک معاملہ تعلیمی تاش کا ہے، تو یہ کھیل اگر جوے اور انہماکِ زائد سے پاک ہو، تو نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ مبتدیوں کے لیے یک گونہ مفید بھی ہے۔ (امداد الفتاویٰ)

وہ کھیل جو بلامقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلے جاتے ہیں، وہ بھی ناجائز ہوں گے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو مومنوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بیکار باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی فائدہ مقصود نہ ہو، وہ ناجائز ہے۔جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ مقصود ہو، وہ جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی امر خلافِ شرع نہ ہو۔

مختصر یہ کہ اسلام نہ تو تفریح طبع کے خلاف ہے اور نہ وہ جسمانی ورزش اور اس سے متعلق کھیل کود کی سرگرمیوں سے روکتا ہے، بلکہ اگر یہ تمام سرگرمیاں اسلامی تعلیمات اور شریعت کی حدود میں رہ کر کی جائیں تو اس کی اجازت دیتا اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اسلامی تعلیمات اور شریعت کے بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھا جائے۔ ایسے تمام اعمال اور تفریحی سرگرمیاں جو شریعت اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہوں، ان سے اجتناب اور دور رہنا ضروری ہے۔