• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو کمپنیوں کے درمیان تعمیرات سے متعلق ایک معاہدہ، اور اس کا شرعی حکم

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: مسئلہ یہ ہے کہ ایک حکومتی کمپنی (ملی شرکت)نے دوسری پرائیویٹ کمپنی سے اس طرح معاہدہ کیا ہے کہ حکومتی کمپنی اپنی زمین (حکومتی زمین) پر تعمیرات کروانے کے لیے پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کر دیتی ہے،اور پرائیویٹ کمپنی حکومتی زمین پر حکومت کے نقشے کے مطابق تعمیراتی کام (مارکیٹ اور مختلف تعمیرات) مکمل کرتی ہے، تعمیر پر سارا خرچہ پرائیویٹ کمپنی خود سے کرتی ہے۔ 

یعنی حکومتی کمپنی اسے تعمیرات کے لیے پیسے وغیرہ نہیں دیتی، پھر جب مکان، یا پلاٹ وغیرہ تیار ہوجاتا ہے ،پھر حکومتی کمپنی کے حوالے کردیتی ہے، اور حکومتی کمپنی اس جگہ (مارکیٹ وغیرہ)کو دوسرے لوگوں پر پرائیویٹ کمپنی کے نمائندے کی موجودگی میں آگے بیچتی ہے، ساتھ ساتھ دستاویزات اور زمین کی اسناد وغیرہ بھی خریدنے والے کے نام کرکے حوالے کردیتی ہے۔ 

البتہ بیچنے میں دونوں کمپنیوں کے درمیان یہ طے ہواہے کہ جتنا خرچہ ہوا ہے، اس سے بڑھ کر حکومتی کمپنی یہ جگہ بیچے گی، مثلاً 100 ڈالر کا خرچہ ہونے کی صورت میں 120 ڈالر یا اس سے بڑھ کر بیچنے کی حکومتی کمپنی پابند ہوتی ہے، اور فروخت ہونے کی صورت میں حکومتی کمپنی صرف ٪16 فیصد اپنے پاس رکھتی ہے اور بقیہ ٪84 فیصد بنانے والی (پرائیویٹ ) کمپنی کو دیتی ہے، البتہ حکومتی کمپنی یہ ٪ 16 فیصد خرچہ اور منافع ملا کر مکمل قیمت سے لیتی ہے، صرف منافع سے نہیں لیتی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح معاہدہ کرنا شرعا ًجائز ہے یا نہیں؟ اور حکومتی کمپنی کا یہ ٪ 16 فیصدمکمل رقم سے منہا کرکے لینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں جب زمین سرکاری کمپنی کی ہے اور دوسری کمپنی (پرائیویٹ) اپنی رقم سے تعمیرات کرتی ہے، تعمیر مکمل ہونے کے بعد وہ حکومتی کمپنی کے حوالے کرکے اور حکومتی کمپنی پرائیویٹ کمپنی کی اجازت سے آگے لوگوں پر بیچتی ہے تو یہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہے،یہ اجارۂ فاسدہ کے حکم میں ہے، ایسی صورت میں زمین اور اس پر ہونے والی تمام تعمیرات حکومتی کمپنی کی ہوگی۔ 

البتہ پرائیویٹ کمپنی نے تعمیر پر جتنا خرچہ کیا ہے وہ اپنے خرچے اور اجرت مثل (عام کمپنیاں اس طرح کام کرنے پر جتنی اجرت لیتی ہیں) کی حق دار ہوگی، اور آئندہ کے لیے یہی معاملہ درست رکھنے کے لیے پرائیویٹ کمپنی کے لیے ابتداءً اجرت کا تعین رقم کے اعتبار سے کرنا ضروری ہوگا، اور فیصد کے اعتبار سے اجرت کی تعیین جہالت کی بنیاد پر درست نہ ہوگی۔ 

(فتاوی شامی، (مسائل الشتی، 6/ 747، ط: سعيد - جامع الفصولین، الفصل الثالث والثلاثون أحکام العمارۃ فی ملک الغير، 2/ 161، ط: إسلامی کتب خانہ - فتاویٰ شامی، کتاب البيوع، باب المرابحۃ والتوليۃ، فصل فی القرض، 5/ 166، ط: سعيد)