• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُمید کا لفظ بولتے ہی ایک ایسا اجلا، نکھرا ، تصور ذہن کے پردے پر جھلملاتا اور لطیف سا احساس ہوا کے دوش پر لہراتا، آپ کو مستقبل کے حسین خوابوں میں لے جاتا ہے۔ جہاں اس اُمید کی ڈور سے بندھی وہ البیلی خوشی ملے گی، جس کی تگ و دو میں ہم اپنا آج اور گزشتہ کل صرف کر چکے ہوتے ہیں۔ 

ہم کتنے ہی مایوس اور رنجیدہ ہوں ، کوششیں کر کر کے کئی مرتبہ شکست مان چکے ہوں اور آگے اندھیرا ہی کیوں نا نظر آ رہا ہو، لیکن جب کوئی ’’اُمید‘‘ کا ننھا سا ہی دیا، آپ کے ہاتھوں میں تھما دے تو مانو دل دماغ میں آس کی مشعل روشن ہو جاتی ہے۔ اور آپ جو تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے اور اس کام سے دور ہو گئے تھے یا دور کر دیے گئے تھے ازسرنو تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ 

اور ایک نئی توانائی سے اس کام کی کامیابی کی خواہش رکھ کر اپنی کارکردگی کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اُمید ایک ایسا جذبہ ہے جو ناکامی کے باوجود اس احساس کو آپ کی ذات پر حاوی نہیں ہونے دیتا۔ وہ مسلسل کوشش پر اُبھارتا ہے اور آپ کا ہاتھ تھام کر منزل پر پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ 

اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جنھوں نے ناکامی کے باوجود تھکنا نہیں سیکھا ، ہارنا نہیں پسند کیا بلکہ سعی و عمل کی جہد جاری رکھی۔ حالاں کہ سامنے کوئی ’’وننگ پوائنٹ‘‘ بھی نہیں، لیکن یہ آس کا جگنو ہی تو ہوتا ہے جو اندھیارے میں بھی ٹمٹماتا رہتا ہے اور اسی جگنو کے سائے تلے کامرانیاں کسی اوٹ میں آپ کی راہ تک رہی ہوتی ہیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے جدو جہد کی داستانوں سے راہ کی رکاوٹوں ، تلخ رویوں کو نظر انداز کر کے اُمید کے سائے تلے چلتے گئے اور منزل کو پا لیا۔

اس منزل پر کانٹوں کا راج اگر چہ زیادہ ہے ۔ آپ کے آگے بڑھنے اور کامیابی کی تگ و دو لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں یا صرف ہم ہی اس سربلندی پر رہیں۔ کامیابی ، شہرت اور مقبولیت کا جھنڈا صرف ہم ہی لہرائیں ۔ ہما کا تاج صرف ہمارے سر پر ہی بیٹھنا چاہیے ، یہ بھول کر کہ قابلیت ، وجاہت ، مہارت، صلاحیت سب میراث میں نہیں حاصل ہوتیں۔ یہ خداداد ہیں۔ 

ایک ان پڑھ دیہاتی کی اولاد کامیابی کی معراج بھی چھو لیتی ہے اور کہیں انتہائی اعلیٰ طبقے و دماغ کے افراد کےبچے عام سے ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ بات ہے لگن، شوق و رغبت کی، مواقع کی مثبت و موافق حالات، صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں اور ارد گرد لوگوں کے حوصلہ افزا رویہ سونے پر سہاگا کا کام دیتے ہیں۔

آگے اور آگے ہاتھ کھینچ کر انہیں، ان کی صلاحیتوں و قابلیتوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے چہار طرف ایسے لوگوں کا اژدھام ہے جہاں اگر اپنی ذات کو نمایاں مرتبہ نہیں مل سکا تو جسے فراہم ہو رہا ہے ،اس کے رستے میں بھی کیلیں بچھا دی جائیں ، تاکہ اس کے پیر بھی گھاؤ سے آشنا ہوں۔ ہم رشک نہیں حسد کے قائل ہیں ، نہ تو دوسرے کو اُمید دلاتے ہیں اور نہ آگے بڑھانے میں معاون کا کردار نبھاتے ہیں۔ اپنے الفاظ سے کچوکے لگاتے ہیں ۔ حوصلے پست کرتے ہیں ۔ ذہنی دباؤ دیتے ہیں۔ 

دوسرے لفظوں میں ایک اچھے بھلے شخص کی شخصیت مسخ کرتے ہیں ۔ اور اس کا احساس بھی نہیں کرتے ۔جانبداری، تعلق داری اورمطلب پرستی ہمارے لیے آگے بڑھنے کے اہم عناصر ہیں ، اسی کی فوقیت ہے۔ کام نکالیے اور کنارے ہو جائیں۔ جب تک کام اس وقت تک اس کی اہمیت یا خوشامدیں۔ افسوس ہوتا ہے ایسے سلوک پر۔ ورنہ انہی میں معدودے چند ایسے بھی ہیں جو خود دوسروں کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ ٹانگ نہیں ہاتھ کھینچتے ہیں۔ 

پیچھے نہیں آگے بڑھاتے ہیں ۔ اگر چہ ایسے لوگوں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ،یہ اسی دنیا کے باسی ہیں ۔ لیکن ابھی چند اچھی ہستیاں بھی ان خود غرض لوگوں کے درمیان موجود ہیں۔۔ کہنا تو یہی تھا اُمید دلائیے ، امید قائم رکھیے۔

امید کی بنیاد پر لوگوں کو نوید دیجیے، بہتر مستقبل کی ، خوشیوں کی، حوصلہ مندی کی۔ ان کی صلاحیتوں و قابلیتوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کیجیے۔ یہ سوچ کر جب ہم کسی کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں تو قدرت کسی کے ذریعے ہمارے لیے رستے سے کانٹے صاف کروارہی ہوگی۔ ٹانگ نہیں ،ہاتھ کھینچیے۔