مانچسٹر(ہارون مرزا)برطانیہ میں 16سال سے کم عمر نوجوانوں کے ا سمارٹ فون پر پابندی لگا ئی جا رہی ہے نہ ا ن کے سوشل میڈیا کے استعمال پر کوئی روک ٹوک ہوگی فی الحال ایسی کسی تجویز پر سوچ بچار نہیں کیا جا رہا ۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے سائنس اور ٹیکنالوجی پیٹر کائل نے این ایس پی سی سی میں نوجوانوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں ان کے تحفظات پر تبادلہ خیال کیا۔ نوجوانوں کا موقف تھا کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی سے ان کے سماجی روابط میں کمی آئیگی جو انکے بنیادی حقوق کی خلاف ورز ی کے زمرے میںآتا ہے برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق آسٹریلوی طرز پر ٹک ٹاک ‘ انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسی سائٹس تک کم عمر نوجوانوں کی رسائی کو محدود کرنیکی پالیسی کے نفاذ کے حوالے سے آج کل خبریں گردش میں ہیں جس پر نوجوانوں کے بعض گروپس تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پیٹر کائل نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو آن لائن نقصانات کو روکنے کے لیے مزید کام کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگلے سال سے نئے قوانین نافذ ہونیوالے ہیں جن کے نتیجے میں بھاری جرمانے اور یہاں تک کہ ان معاملات میں جیل بھی ہو سکتی ہے جہاں آن لائن حفاظت کی خلاف ورزی ہوئی وہاں حکومتی ایکشن ہوگا تاہم بچوں کے اسمارٹ فونز کے استعمال اور سوشل میڈیا تک رسائی محدود کرنا میرا پسندیدہ انتخاب نہیں ہے۔ چائلڈ لائن آپریٹرز سوشل میڈیا سے نقصانات کا شکار بچوں کی روزانہ تقریباً کالز کا سامنا کرتے ہیں نوعمروں کے پینل نے پلیٹ فارمز کی لت کے بارے میں بھی شکا یت کی اور ان کے اکاؤنٹس ہیک ہونے پر مدد حاصل کرنے میں دشواریوں اور ایسے مواد کی اطلاع دینے کے بارے میں جو انہیں بے چین یا پریشان کر رہے تھے بات کی تاہم ان میں سے کسی نے بھی پابندی کا مطالبہ نہیں کیا۔ انہوں نے کائل کو متنبہ کیا کہ کسی نئے قانون کو مسلط کرنے سے ان کے سماجی روابط مدد تک رسائی اور ان کی حفاظت کم ہو جائیگی ۔کائل کا کہنا تھا کہ وہ آسٹریلیا میں حکومت کے ساتھ یہ دیکھنے کے لیے رابطے میں ہیں کہ اس میں کیا نتائج ملے ۔ سب سے بڑا خطرہ جس سے نمٹنے کے لیے فکر مند تھے وہ سوشل میڈیا کے نتیجے میں بچوں کی اموات کا ہے ‘ میں ان بچوں کے والدین سے ملا ہوں جنہوں نے خودکشی کی ہے یا آن لائن سرگرمی کے ذریعے انہیں قتل پر اکسایا گیا ہے ۔