حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن ایسے ناخوشگوار واقعات جب حادثہ بن جائیں جس میں اندازہ نہ ہو کہ کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں اور جب وقفے وقفے سے متاثرین کی تعداد بڑھتی جائے جیسے پہلے 20یا 25 پھر 45اور پھر بڑھتی ہی جائے یہ تعداد تو پھر سوگواری پورے عالم پر چھا جاتی ہے ان ناگہانی آفات، سانحات اور حادثات کو غم الم کا ساماں کہیں گے۔ انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں بعض حادثے ایسے ہوتے ہیں جو صرف بھیانک موت پر جاکر رکتے ہیں یا پھر متاثرہ انسان کو ایسی بری طرح مجروح کرتے ہیں کہ وہ نہ زندوں میں ہوتا ہے اور نہ مردوں میں ہوتا ہے اس قدر اموات پر ہر مرتبہ ہمارے دکھوں میں اضافہ ہوتا ہے ہم یہ کہہ کر انہیں اگنور نہیں کر سکتے کہ اس حادثے پر حیرانی نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مسافر گاڑیوں کی کانوائے پاراچنار جارہی تھی کہ 200گاڑیوں کے قافلے پر مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔بات یا خبر صرف حملے کی تھی اور پھر جانوں کے نقصان کی تھی مگر یہ کون جان سکتا ہے کہ اس سانحے نے کئی گھر اجاڑ دیئے ہونگے اور مرنے والوں نے کس تکلیف کے عالم میں جان دی ہوگی۔ ایسے ہی حملے عراق میں ہوا کرتے تھے جب وہاں بھی بسوں پر حملے کئے جاتے اور کئی غربا کے بچے یتیم ہو جاتے اور پھر زندگی کو مجبور لوگ کیسے کیسے کھینچتے ہونگے یہ درد بھری زندگی کی کہانی متاثرین کے لواحقین سے پوچھئے۔ پاکستانی قوم کب تک ایسے حادثات کا شکار ہوتی رہے گی؟ ایک ہی ملک کے رہنے والے اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہیں۔ ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم لوگ کسی کمزور طبقے کی موت تک کا افسوس نہیں کرتے۔ حادثے میں اگر زخمیوں کے کچھ اعضا متاثر ہوں تو ان کی پیوند کاری ایک طرف مگر لواحقین جن کے پیارے شہید ہو جائیں انہیں تک حکومتی سطح پر کوئی گرانٹ نہیں دی جاتی یعنی زندہ رہیں یا کسی حادثے کا شکار ہوں ایک ہی بات ہے۔ ہمارے یہاں کے سماجی خدمت کے ادارے بھی صرف مخصوص مسائل پر فنڈ ریزنگ کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ ہسپتال میں گرانٹ جمع کرکے وہاں دیتے ہیں مگر ان خدمتی اداروں کو بھی کبھی خیال نہ آیا کہ حادثات میں شہادت پانے والوں کے اور زخمیوں کے لواحقین کی خبر گیری بھی کریں کہ وہ اب کن حالات میں ہیں اور بعد میں ان کی خبرگیری کون کرے گاہم سبھی کچھ گورنمنٹ کی گرانٹ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہی دیگی۔ایسے حادثات اور سانحات کے عادی ہم لوگ ہو چکے ہیں اور جب کوئی عادی ہو جائے تو بے حس بھی ہو جاتے ہیں پھر بے حس لوگ کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ حکومت سطح پر ایسے حادثات کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات کرنا چاہیں۔ ایسے حادثات کے رحم و کرم پر معصوم لوگوں کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے کہ انہیں تحفظ کا احساس ختم ہو کر مایوسی کا احساس جاگے۔ وزیرداخلہ کا صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ’’ہم انسانی جانوں کے زیاں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے کسی رعات کے مستحق نہیں ، تمام تر ہمدردیاں جاں بحق افراد کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔‘‘تو محترم وزیر داخلہ صاحب ظاہر سی بات ہے کہ اتنے ہولناک حادثات کا شکار ہونے والوں کیساتھ ہی سبھی کی ہمدردیاں ہونگی۔ ظالموں کے ساتھ تو نہیں ہونگی مگر ہماری درخواست ہے کہ ظالمین کے ہاتھ بھی توڑے جائیں ان کے گھناؤنے جرم پر ان کیساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے مگر یہاں تو مجرم ہی نہیں پکڑے جاتے کہ اتنے معصومین کے قاتلوں کا سراغ تک نہیں ملتا۔ کہتے ہیں کہ وہاں کے شیعہ اور سنی تو آپس میں مل کر رہنا چاہتے ہیں مگر کچھ خفیہ ہاتھوں کو ان کا امن سے رہنا پسند نہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کچھ اراضی کا مسئلہ تھا پرانا اور اس کا اصل مالک شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے مگر دوسرے مسلک کے شخص نے جذباتی باتوں سے آگ بھڑکا رکھی ہے پھر یہ آگ بڑھتے بڑھتے دو مسلمان بھائیوں کے دست گریبان تک محدو د نہیں رہتی بلکہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے تک آجاتی ہے۔پار ا چنار کا جھگڑا ختم ہو تو یہ لڑائی کی آگ آگے تک نہ پھیلتی جائے آخر جھگڑا کرنے والے بھی تو اسی مٹی میں دفن ہونگے جس پر تکرار ہوتی ہے کہ ہر کسی نے اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہے۔ اسی سلسلے کا کلام ہے کہ شہیدوں کے لہو سے جو زمیں سیراب ہوتی ہے بڑی زرخیز ہوتی ہے بہت شاداب ہوتی ہے جہاں سے غازیان ملت بیضا گزرتے ہیں وہاں کی کنکری بھی گوہر شب تاب ہوتی ہے کاش یہ چار دن پہلے کا خونی حادثہ بس آخری ہو اور اس کے بعد دونوں مسلمان بھائی ہوش کے ناخن لیں گے کہ اب نہیں خون بہانہ کیونکہ ہر جان قیمتی ہے اور ہر کوئی دکھی ہوتا ہے ایسے حادثات پر کہ بے وجہ خون سے اپنے ہاتھ رنگنا اور گناہ گار ہونا جبکہ قاتلوں کو شائد خدا کو خوف بھی نہیں ۔ اب بھی سنئے تو اک آسیب صدا باقی شہر ویران نہیں وادی ہو کی صورت