• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تنظیم عالم قاسمی

انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اور جاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خلاصۃ التفاسیر میں ہے کہ خواب میں روح جسم سے نکل کر عالم علوی اور عالم سفلی میں سیرکرتی ہے جو جاگنے میں نہیں دیکھ سکتی وہ دیکھتی ہے۔ 

اسے حِسِّ روحانی کہنا چاہیے، حس جسمانی صرف حاضر پر حاوی ہوسکتی ہے اور حِس روحانی حاضر وغائب دونوں کا ادراک و احساس کرتی ہے، اس لئے خواب میں ایسے احوال وکیفیات مشاہدہ میں آتی ہیں جن سے خود خواب دیکھنے والے کو بڑی حیرت ہوتی ہے، کبھی مسرت انگیز اور کبھی خوفناک تصویریں ذہن میں ابھرتی ہیں اور بیداری کے ساتھ ہی یہ تمام کہانی یکلخت مٹ جاتی ہے۔ 

قرآن کے متعدد مقامات میں مختلف نوعیتوں سے خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اور احادیث میں بھی رسول اکرمﷺ نے اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کا وجود حق ہے۔ 

انبیائےکرام کے علاوہ دیگر افراد کا خواب اگرچہ حجت شرعی نہیں تاہم یہ فیضان الوہیت اور برکات نبوت سے ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اس سے مراد علم نبوت ہے یعنی رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جزو حصہ ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم) غور کیاجائے تو اس حدیث میں آپ ﷺ نے اچھے اور بہتر خواب کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی ہے اوراسے نبوت کا پرتو قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اوراس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکّل ہوکر نظر آتی ہیں، مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ ور روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن وخیال ان ہی باتوں کی فکر اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ ور روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، یا ایک شخص اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتا ہے اور اس کے ذہن پر ہروقت اسی محبوب کا سایہ رہتا ہے تو اس کے خواب کی دنیا پر بھی وہی محبوب چھایا رہتا ہے۔ غرض کہ عالمِ بیداری میں جس شخص کے ذہن وخیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے، وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہے۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔

دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا۔ چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اور ڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔

کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل وصورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوفزدہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی جاتی نظر آتی ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ جو موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہوجاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے۔ 

پہلی قسم کی طرح یہ بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔ اسی طرح کے ڈراؤنے اور برے خواب سے حفاظت کے لیے حدیث میں اس دعا کی ہدایت دی گئی ہے۔ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضبِہ وَعَذَابِہ وَمِنْ شَرِّ عِبَادِہ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیاطِیْنَ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ (ابوداؤد وترمذی) ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اوراس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وساوس و اثرات سے اور اس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں“۔

خواب کی تیسری قسم وہ ہے جس کو منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اوراس کے قلب کے آئینہ میں بطورِ اشارات وعلامات ان چیزوں کو مشکل کرکے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے یا جن کا تعلق موٴمن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اورجس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ (مظاہرحق جدید)

اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور خوشخبری ہوتی ہے کہ وہ بندہ خوش ہو اور اس کا وہ خواب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے حسن سلوک اورامید آوری کا باعث اور شکر خداوندی میں اضافہ کا موجب بنے اور برا خواب شیطانی اثرات کا عکاس ہوتا ہے یعنی برے خواب سے انسان فطری طور پر پریشان اور غمگین ہوتا ہے جس سے شیطان بڑا خوش ہوتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے ہدایت دی ہے کہ جو شخص برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے اس کو چاہیے کہ بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور اپنی اس کروٹ کو تبدیل کردے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سورہا تھا۔(مشکوٰۃ:۳۹۴)

دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی اس طرح کا خواب دیکھے تو اس طرف توجہ نہ دے اور نہ اس کو کسی دشمن یا دوست کے پاس بیان کرے، اللہ کی پناہ مانگنے اور تین بار تھتکارنے سے انشاء اللہ وہ اس برے خواب کے مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔ 

ایساخواب کسی دشمن یا دوست کے سامنے بیان نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر جب خراب تعبیر دے گا تو اس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا لازم آئے گا۔

دل و دماغ میں مختلف قسم کے اندیشے، وسوسے اور مختلف اوہام وخیالات پیدا ہوں گے جن سے وہ شخص پریشان ہوگا اور خواہ مخواہ اس کا سکون و چین متاثر ہوگا، اسی کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ سننے والے شخص نے جس خراب تعبیر کی نشاندہی کی ہے وہ واقع ہوجائے۔ 

اس لیے کہ خواب کے وقوع پذیر ہونے میں خواب کو ایک خاص تاثیر حاصل ہے کہ خواب سننے والا جو تعبیر دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ویسا ہی وقوع پذیر ہوجاتا ہے، چنانچہ ابورزین عقیلیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہی علیٰ رجل طائر مالم یحدث بہا فاذا حدث بہا وقعت (مشکوٰۃ: ۳۹۶) ”خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب اس کو کسی کے سامنے بیان کردیا جاتا ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے“۔

مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح پرندہ عام طور پر کسی ایک جگہ ٹھہرا نہیں رہتا بلکہ اڑتا اور حرکت کرتا رہتا ہے اور جو چیز اس کے پیروں پرہوتی ہے وہ بھی کسی ایک جگہ قرار نہیں پاتی بلکہ ادنیٰ سی حرکت سے گرپڑتی ہے۔ (جاری ہے)

اقراء سے مزید