مولانا احمد سعید
کوئی شخص کسی کے ساتھ کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو، مگر جب تک دوسرا شخص بھی اپنی زندگی کو سنجیدگی سے نہ لے، تب تک تنہا پہلے کا احساس وفکر پوری طرح فائدہ نہیں دے سکتا، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمارے لیے بےشمار آنسو بہانے اور سفارش کرنے کے باوجود پھر بھی ہمیں اس سہارے زندگی گزارنا کہ بس ہم جو مرضی کرلیں، حضور ﷺ ہمیں بچالیں گے، بالکل درست نہیں، بلکہ ضرورت اس کی ہے کہ آپ ﷺ کی تمام تعلیمات کو عمل میں لایا جائے، بالخصوص جن چیزوں کے بارے میں آپ ﷺ کو اپنی اُمت کی تباہی کا خوف واندیشہ تھا، اُن سے بچا جائے، تا کہ امتی کی جانب سے عشقِ حقیقی کا حق ادا ہو، جن میں سے چند یہ ہیں:
دنیا کی محبت و رغبت … !
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! میں تمہارے (تھوڑے سے نہ کہ حد سے زیادہ) فقرو افلاس سے نہیں ڈرتا، بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم پر تم سے پہلے لوگوں کی طرح دنیا کشادہ کردی جائے، پھر تم پہلے لوگوں کی طرح دنیا کی محبت و رغبت میں گرفتار ہوجاؤ گے اور یہ دنیا پھر تمہیں پہلے لوگوں کی طرح ہلاک کردے گی۔‘‘ (بخاری، مسلم)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’میں اپنے دنیا سے جانےکے بعد تمہارے بارے میں جن چیزوں سے ڈرتا ہوں، ان میں دنیا کی تروتازگی اور زینت بھی ہے (جو فتوحات حاصل ہونے کے بعد) تمہارے سامنے آئے گی۔‘‘ (بخاری، مسلم)
مخفی شرک : ریا کاری … !
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میں اپنی اُمت پر مخفی (چھپے ہوئے) شرک اور مخفی خواہشات سے ڈرتا ہوں۔ عرض کیا گیا: یارسول اللہﷺ ! کیا آپ کے بعد آپ کی امت شرک کرے گی؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ہاں، خبردار! میری اُمت سورج، چاند اور پتھر کی عبادت تو نہ کرے گی اور نہ بتوں کے آگے سجدہ کرے گی، البتہ اپنے اچھے کام لوگوں کو دکھائے گی اور مخفی خواہشات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی شخص صبح روزے دار اُٹھے گا، پھر نفسانی خواہشات میں سے کوئی خواہش (کھانا پینایا صحبت ) پیش آجائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔‘‘(مسنداحمد)
قرآن سے دوری اور دوسروں پر شرک کا الزام … !
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک، مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا ڈر ہے، وہ ایک ایسے آدمی کا ہے جس نے قرآن پڑھا، یہاں تک کہ اس پر قرآن کا جمال بھی دکھائی دیا اور جب تک اللہ نے چاہا، وہ غیروں کے مقابلے میں اسلام کا پشت پناہ بھی رہا (مگر) پھر وہ قرآن سے دور ہوگیا اور اسے اپنی پُشت کے پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگادیا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے نبی ﷺ!ان دونوں میں سے شرک کے زیادہ قریب کون ہوگا؟ الزام لگانے والا یا جس پرالزام لگایا گیا؟ آپ ﷺ نےفرمایا: الزام لگانے والا۔‘‘ (ابن حبان)
نااہل حکمران، قتل، فیصلہ میں ناانصافی، قطعِ رحمی، گانےکے طرز پر قرآن کی تلاوت … !
سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا: ’’میں تم سے متعلق چھ چیزوں کےبارے میں ڈرتا ہوں: ۱-نااہلوں کے حکمران بننے سے، ۲-(ناحق) خون بہانے سے، ۳-(قاضیوں کے) فیصلے بیچنے سے، ۴-رشتے داریوں کے توڑنے سے، ۵-نوجوانو ں کے گانےکے انداز پر قرآن پڑھنے سے، ۶-مشیروں وزیروں کے بڑھ جانے سے (جس سے ظلم بڑھ جائے گا)۔ ‘‘ (الجامع الصغیر)
گمراہ کرنے والے حکمران … !
شفیع اعظم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں (حکمرانوں) سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (ترمذی) یعنی جب ایسا ہوگا تو امت میں بہت فساد پھیلے گا۔
خواہش ِنفس اور لمبی آرزو … !
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خوف خواہشِ نفس اور لمبی آرزو کا ہے۔ خواہشِ نفس حق سے روک لیتی ہے، جبکہ لمبی آرزو آخرت بھلا دیتی ہے۔‘‘ (بیہقی)
قومِ لوط کا عمل … !
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اپنی اُمت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا ڈر ہے، وہ قومِ لوط کے عمل (ہم جنس پرستی) کا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
زبان کی تیز طراری … !
رسولِ مقبول ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک، اس امت کے حوالے سے سب سے زیادہ مجھے جس چیز کا خوف ہے، وہ ہر اس منافق کا ہے جو زبان کی تیز طراری کا ماہر ہو۔‘‘(مسند احمد)
عالم کا پھسلنا، قرآن میں جھگڑنا، تقدیر کا انکار … !
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت پر تین چیزوں کا اندیشہ اور خوف ہے: ۱-عالم کے پھسلنے کا (دین کے معاملے میں)، ۲-منافق کے قرآن کے بارے میں جھگڑا کرنے کا، ۳-تقدیر کے جھٹلانے کا۔‘‘(طبرانی کبیر)
بخل، اتباعِ نفس، حکمران کی گمراہی … !
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت کے بارے میں تین چیزوں کا خوف ہے: ۱-انتہائی کنجوسی کا، ۲-خواہشِ نفس کا جس کی پیروی کی جائے، ۳-گمراہ حکمران کا۔‘‘ (مسند بزار)
پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات … !
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا ڈر ہے، وہ تمہارے پیٹوں اور تمہاری شرم گاہوں کی گمراہ کرنے والی خواہشات ہیں۔‘‘ (مسند احمد)
زنا اور چھپی ہوئی شہوت … !
فرمانِ نبوی ﷺ ہے: ’’بے شک، مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر اور خوف ہے، وہ زنا اور چھپی ہوئی شہوت(دل میں برے خیالات پالنا) ہے۔‘‘ (الترغیب، طبرانی)
تقدیر کو جھٹلانا اور ستاروں کی تصدیق … !
ارشادِ نبوی ﷺ ہے : ’’مجھے اپنے بعد اُمت کے بارے میں تقدیر کو جھٹلانے اور ستاروں کی تصدیق (ان کو مؤثر ِحقیقی سمجھنے) کا ڈر ہے۔‘‘ (مسنداحمد)
فتنے، آپس کی لڑائیاں … !
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تم پر دجّال کے سوا اور باتوں (فتنوں، آپس کی لڑائیوں ) کا اندیشہ اور خوف زیادہ ہے۔‘‘ (مسلم، ترمذی)
سود میں ابتلاء … !
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے سود میں مبتلا ہونے کا اندیشہ اور خوف ہے۔‘‘ (مسند احمد)
زبان کی بے احتیاطی … !
سفیان بن عبد اللہ ثقفی ؓ کہتے ہیں: ’’میں نے آپ ﷺ سےعرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! میرے بارے میں آپ کو کس چیز کا زیادہ اندیشہ اور خوف ہے؟ آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: ’’اسی کا خوف زیادہ ہے۔‘‘ (ترمذی)