لندن (سعید نیازی) انگلینڈ اور ویلز میں شدید بیمار اور تکلیف میں مبتلا افراد کو اپنی زندگی کے خاتمے کا اختیار دینے کے حوالے سے پارلیمنٹ میں آج بل پیش ہوگا اور ارکان اس پر بحث کریں گے اور ووٹنگ میں حصہ لیں گے، ملک بھر میں اس وقت قانون بیمار افراد کو موت کے انتخاب کے لیے طبی مدد حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ تاہم رکن پارلیمنٹ کم لیڈ بیٹر کے اس حوالے سے پیش کردہ بل کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے۔ مجوزہ قانون سازی میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص اپنی جان لینا چاہتا ہے، اس کی عمر18برس سے زائد ہونی چاہیے اور وہ کم از کم بارہ ماہ سے جی پی کے ساتھ رجسٹر ہونا چاہیے۔ اس پر کوئی دباؤ نہ ہو اور وہ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرے۔ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق اس کی بقیہ زندگی چھ ماہ تک ہونی چاہیے۔ اسے دو مختلف گواہوں کی موجودگی میں ڈیکلریشن پر دستخط کرنا ہوں گے، اسے دو ڈاکٹروں سے ایک ہفتہ کے وقفہ سے موت کے انتخاب کے بارے میں مطمئن کرنا ہوگا اور اس کے بعد ہائی کورٹ کے جج سے اجازت حاصل کرنا ہوگی، جس کے14دن بعد وہ موت کا انتخاب کرسکتا ہے۔ موت کے لیے ڈاکٹر اسے مواد فراہم کرے گا لیکن اس کا استعمال وہ خود کے گا۔ بل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ موت کے انتخاب کے لیے کون سی دوا استعمال کی جائے گی۔ کسی بیمار شخص کو موت کے انتخاب کے مجبور کرنے کی سزا14برس ہوگی۔ جمعہ کو اگر بل کے حق میں زائد ووٹ آئے تو پھر اسے کمیٹی کی سطح پر بھیجا جائے گا، جہاں اراکین پارلیمنٹ بل میں ترامیم پیش کرسکیں گی، جس کے بعد بل آئندہ برس پارلیمنٹ اور ہاؤس اف لارڈز میں ووٹنگ کے لیے جائے گا۔ حکومت بل کے حوالے سے غیر جانبدار رہے گی اور اراکین پارلیمنٹ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکیں گے۔ اس سے قبل2015ء میں بھی اسی حوالے سے بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا، جس کی330نے مخالفت اور118نے حمایت کی تھی۔