لندن (پی اے) بچوں کے تحفظ سے متعلق قومی جائزے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیملیز میں جنسی زیادتیوں کا پتہ چلا کر اس کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے فوری تربیت کی ضرورت ہے، ایک انڈی پنڈنٹ پینل کی جانب سے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جس نے بچوں کے تحفظ سے متعلق سنگین واقعات کا جائزہ لیا کہاگیاہے کہ بچوں کو عام طورپر نظر انداز کیاجاتاہے یا ان پر یقین نہیں کیاجاتا اور انھیں ان کی فیملی کے بالغ افراد سے ہی خطرہ ہوتا ہے جنھیں عام طورپر نظر انداز کیاجاتاہے یامعمولی سمجھاجاتاہےیا غلط تصور کیاجاتاہے۔ کمیشن کی جانب سے193بچوں کے تجربات کا جائزہ لیا گیا، اور جب ان کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وہ خاندان ہی کے کسی فرد یا افراد کی جانب سے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں توان کے معاملات پر غور کیا گیا۔ بچوں کے جنسی استحصال کے ماہر مرکز، جسے بچوں کی حفاظت کے عمل کا جائزہ لینے والے پینل نے مجموعی تحقیق کرنے کا کام سونپا تھا، نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ ایک تہائی سے زیادہ معاملات میں بدسلوکی کرنے والے پہلے سے خطرہ سمجھے جاتے تھے۔ ان تمام بچوں میں سے 7نے خودکشی کی، جبکہ مزید 14نے خود کشی کی کوشش کی یا اس کے بارے میں بات کی۔ رپورٹ کے مطابق، ان میں سے ایک بچی نے، جو صرف 7سال کی تھی، اپنے آپ کو پھانسی دینے کے بارے میں بات کی۔ تحقیق سےیہ بھی انکشاف ہوا کہ 10بچیاں جنسی زیادتی کے نتیجے میں حاملہ ہو گئیں، جن میں سے کم از کم 6نے بچوں نے بچے کو جنم دیا۔ ان میں سب سے کم عمر لڑکی اس وقت صرف11سال کی تھی جب اس کے بچے کی پیدائش ہوئی۔ بچوں پر ہونے والے دیگر اثرات میں خود کو نقصان پہنچانا، کھانے کی خرابی، ڈپریشن یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی تشخیص، منشیات یا الکحل کا غلط استعمال اور تعلیم پر اثرات شامل تھے۔پینل نے بتاہا کہ جائزہ لیے گئے معاملات میں 3 چوتھائی یعنی 75 فیصد بچے لڑکیاں تھیں، اور 73 فیصد سفید فام برطانوی تھے۔ 29 فیصد معاملات میں بچوں کی عمر 6 سال سے کم تھی، 46 فیصد چھ سے 12 سال کے درمیان تھے، جبکہ 25 فیصد بچے 13 سے 17 سال کے درمیان تھے۔ 98 فیصد معاملات میں بدسلوکی کرنے والے مرد تھے۔پینل نےتربیت، نگرانی اور قیادت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ پینل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقصان کا خطرہ معلوم تھا لیکن اسے نظر انداز کیا گیا، اس سےانکار کیا گیا یا اس کا رخ موڑ دیا گیا۔ لہذا ، یہ اکثر پیشہ ور افراد کا معاملہ نہیں ہے جو بدسلوکی کے خطرے کے بارے میں نہیں جانتے ہیں ، بلکہ ایک ایسے نظام کا معاملہ ہے جو اس قسم کے خطرے کو نہیں دیکھتا ، نوٹ اورسمجھتا ہے۔ اس جائزے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ شرم، خوف اور اپنے اہل خانہ کو دھوکہ دینے کے بارے میں تشویش کا مطلب یہ ہے کہ بچے دوسروں کو یہ بتانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔پینل کی سفارشات میں کہاگیا ہے کہ پیشہ ور افراد، اپنے مختلف کرداروں میں، بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے بارے میں کس طرح مشغول ہوتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں، اس رویئے میں ایک گہری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس میں تربیت، نگرانی اور قیادت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی شامل ہے۔ پینل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک قومی ایکشن پلان تیار کرے، جس میں اس بات کو یقینی بنانا بھی شامل ہو کہ فوجداری انصاف اور تحفظ فراہم کرنے والی ایجنسیاں مل کر کام کریں تاکہ ان لوگوں کی مضبوط تشخیص اور انتظام کو یقینی بنایا جاسکے جو خطرے کا باعث بنتے ہیں اور جو بچوں کے ساتھ رابطے رکھتے ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جب پہلی بار خدشات کی نشاندہی کی جاتی ہے تو تحقیقات، تشخیص اور مدد کی فراہمی تک ایک قومی راستہ فراہم کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے جس میں ڈاکٹروں کی مدد کرنے کے لئے ایک واضح طریقہ کار فراہم کیا جائے ۔ پینل کی چیئر پرسن اینی ہڈسن نے ʼبچوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے والے نظامʼ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے مرکز میں موجود 193 بچوں کی آوازیں اور تجربات بہت واضح کرتے ہیں کہ اکثر ہم بچوں کو ان کے خاندان کے لوگوں کی جانب سے جنسی استحصال سے بچانے اور ان کی شناخت کرنے اور ان کے تحفظ کے لئے کام کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، سرکاری اداروں میں، انٹرنیٹ پر اجنبیوں اور ہائی پروفائل افراد کی طرف سے بچوں کے جنسی استحصال پر بہت ضروری توجہ دی گئی ہے.لیکن تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے بچوں کو کسی ایسے شخص کے ذریعہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ ان کے اپنے گھر میں رہتا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد بچوں کو ان کے خاندان کے لوگوں کی جانب سے بدسلوکی کی صورت میں ان کی مدد اور ان کوتحفظ فراہم کرنے میں حائل بہت سی رکاوٹوں پر روشنی ڈالنا ہے۔یہ جائزہ لینے والے مرکز کے ڈائریکٹر کا کہناہے کہ بچوں کو یہ بتانے کے لئے مدد کی ضرورت ہوتی ہے ، اور یہ ضروری ہے کہ تمام پیشہ ور افراد کو اس بات کی معلومات اور مہارت کی جائے کہ جب کچھ غلط ہوتا ہو تو وہ اسے محسوس کرسکیں ، اور انھیں جنسی استحصال کے خدشات کے بارے میں بچوں اور ان کے خاندانوں سے براہ راست بات کرنے کا اعتماد دیا جائے۔ وسیع تر تربیت کے باوجود، سماجی کام، پولیسنگ، تعلیم اور صحت میں بچوں کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر پیشہ ور افراد کو کوالیفائی کرنے سے پہلے بچوں کے جنسی استحصال پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک دن کی تربیت بھی نہیں ملے گی۔ اس جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موجودہ طریقہ کار افرادی قوت کو خدشات کی نشاندہی کرنے اور بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لئے جواب دینے کے لئے مناسب طور پر تربیت دینے میں ناکام رہا ہے۔