اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) موجودہ حکومتی بندوبست آئی ایم ایف کے ایک اسٹرکچرل بینچ مارک کی وجہ سے عملاً انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور یہ معیاری پیمانہ جنوری 2025سے صنعتوں کے داخلی استعمال کے پاور پلانٹس کو گیس سپلائی منقطع کرکے انہیں بجلی کے گرڈ سے منسلک کرنے کا ہے اور یہ اعلیٰ فیصلہ سازوں کیلیے خوف کا سبب بناہوا ہے۔ انہیں گیس سپلائی منطقع کرنے سے اور کوئی مقصد تو حاصل نہیں ہوگا بلکہ الٹا اس سے برآمدات کو 13ارب ڈالر کا زبردست نقصان ہوگا بلکہ گردشی قرضے میں بھی 392 ارب روپے کا سالانہ اضافہ بھی ہوگا جو پہلے ہی 2700 ارب روپے پر پہنچ چکا ہے۔یہ صورتحال جمعرات کے روز چار وفاقی وزراء کو اس مسئلے پر غور کرنے پر مجبور کر گئی کہ آئی ایم ایف پروگرام کے $7 بلین قرضے میں شامل اس ڈھانچہ جاتی معیار کو کیسے ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزراء برائے تجارت و صنعت، پٹرولیم، اور توانائی نے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ایک اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس پاور ڈویژن میں منعقد ہوا اور دو گھنٹے تک جاری رہا، جس میں متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔ اجلاس وزیر اعظم کی ہدایت پر بلایا گیا تاکہ کیپٹیو پاور پلانٹس کے مسئلے کے حل کے لیے راستہ نکالا جا سکے۔ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے اجلاس کے بعد کہا کہ پٹرولیم ڈویژن اور وزارت تجارت ایک صفحے پر ہیں اور انہوں نے سی پی پیز کو گیس کی سپلائی جاری رکھنے کی وکالت کی، اور وزیر خزانہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرکے اس ڈھانچہ جاتی معیار کو پروگرام سے نکالنے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ اہلکار کے مطابق، آئی ایم ایف کا بورڈ ہی اس شرط کو ختم کر سکتا ہے۔بین الوزارتی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ حکومت آئی ایم ایف سے اس معیار پر عمل درآمد کے لیے جون 2025تک 6ماہ کی توسیع حاصل کرے گی اور اس دوران آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کرے گی کہ اس معیار کو ختم کیا جائے۔ تاہم، حکومت صنعتی شعبے کے لئے گیس کے نرخوں میں اضافہ کرے گی تاکہ وہ ریگیسیفائیڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (RLNG) کی لاگت کے برابر ہو جائیں وزیر تجارت نے خبردار کیا کہ سی پی پیز کی گیس سپلائی منقطع کرنے کے منصوبے سے برآمد کنندگان پر منفی اثر پڑے گا، کیونکہ پاکستان کی غیر یقینی صورتحال کے باعث عالمی خریداروں کا اعتماد مزید کم ہوگا۔ اس کے نتیجے میں صنعتی شعبے کی پیداوار میں کمی، غیر ملکی زرمبادلہ کا نقصان، بے روزگاری، خدمات اور ایف بی آر کو محصول کی کمی ہوگی۔