اشتیاق احمد
نوجوانوں کی سوچ وفکر لطیف اور انسان دوست احساسات سے بھر پور ہو تو ان کی مثال پھو ل اور دِیا کی مانند ہے۔ ان کا رویہ اور طرز عمل مثبت ہوتو یہ ابرِ باراں ہیں۔ ان میں ٹھہراؤ، تدبر ، صبر و تحمل ، برداشت اور مستقل مزاجی ہوتو یہ گوہرِ نایاب ہیں۔ کیونکہ لعل وگہر ہمیشہ گہرائی میں پائے جاتے ہیں۔ اگر ان میں خودی کاجذبہ اور وسعت قلبی اور وسیع النظری بدرجہ اتم موجود ہوں تو یہ اقبال کے شاہین اور عقاب ہیں۔ یہ نوجوان اعلیٰ اخلاقی اقدار اور خود شناسائی کے فن سے آشنا ہوں تو یہ مولانا روم کے “انسانِ کامل “اقبال کے “مرد ِمومن” ہیں۔
اسی طرح ہمارے نوجوانوں کی سیاست کامحور ومرکز انسانی فلاح ، جمہوری اقدار کا فروغ ، اجتماعی مفاد ،انسانی حقوق کی پاسداری اور انصاف و مساوات پر مبنی ایک معاشرے کی تشکیل ہوگاتویہ ہمارے حقیقی اور آئیڈیل لیڈرزہوں گے۔
نوجوان تعلیم براے تکریمِ آدم ، تعلیم برائے تزکیہ نفس ، تعلیم براے امن و یکجہتی ، تعلیم براے حکمت وبصیرت ، تعلیم برائے حُسن ِ سلوک، تعلیم برائے تحفظ ِ اقدار ، زبان وثقافت ، تعلیم برائے انسداد ِ جرائم و دہشت گردی ، تعلیم برائے فروغِ حقوق و فرائض ، تعلیم برائے ادب و آرٹ ، تعلیم برائے حب الوطنی، تعلیم برائے تعمیرِ کردار ، تعلیم برائے تخلیق ، تحقیق ، ایجاد ات ودریافت، تعلیم برائے حصولِ سوِک سنس(Civic sense) ، تعلیم برائے تحفظِ ماحولیات، تعلیم برائے حصولِ جسمانی ، ذہنی اور روحانی تسکین اور تعلیم برائے سماجی فلاح وبہبود کے حامل ہوں تو یہ حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ ((Educated، مہذب (Civilized)اور ایک ذمہ دار شہری اور قوم کہلانے کے مستحق ہوں گے۔
اس کے برعکس ہمارے نوجوان مذکورہ اوصاف حمیدہ سے اگر عاری ہوں گے تو یہ پھول کے بجائے کانٹے ، دِیا کے بجائے ظلمت ، ابرِباراں کے بجائے طوفان ، گوہرِ نایاب کے بجائے سنگدل انسان ، شاہین کے بجائے کرگس، انسانِ کامل کے بجائے ناسور ، مردِ مومن کے بجاے ابلیس ، مسیحا کے بجائے انسانیت کے دشمن، رہنما کے بجائے رہزن ، تعلیم یافتہ کے بجائے گنوار ، مہذب کے بجائے جاہل، ذمہ دار شہری اور قوم کے بجائے قوم کے لیے وبال جان اور دعاگو کے بجائے بددعا کہلائیں گے۔
جہاں ہمیں فخر ہے وہاں ان سے کچھ گلے شکوے اور شکایات بھی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ان میں اتحاد کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ ان میں اجتماعی سوچ کی بجائے انفرادی اور ایک مخصوص سوچ پائی جاتی ہے۔ یہ نوجوان مقصدِ حیات ، مقصدِ دین اور مقصدِ تعلیم سے بہت حد تک نابلد ہیں۔
صبر و تحمل اور تدبر سے کام لینے کے بجائے منفی جذبات میں بہہ جاتے ہیں۔ منفی جذبات انسانی عقل ، حکمت ، دانشمندی اور استدلال کے ازلی دشمن ہیں۔ فکری بحران، ان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
افکارِ تازہ ہمیشہ حریت فکر ، صحبتِ علمائے فکرودانش ، کتب بینی اور مثبت سوچ سے پروان چڑھتے ہیں۔ نوجوان اپنے اُوپر بھروسہ کرنے اور اپنی محنت ولگن سے آگے بڑھنے کے بجائے دوسروں کی انگلی پکڑکر چلنے اور کاندھے استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
ان کافکری بحران ختم کرنے ، اعلیٰ انسانی وسماجی اقدار کو فروغ دینے، انہیں انسان ِ کامل، مرد ِ مومن کے اوصاف سے آگہی دلانے، ان میں جذبہ حب الوطنی کی آبیاری کرنے ، انسانی فلاح و بہبود اور رضاکارانہ جذبات کو اجاگر کرنےان کو فلسفہ ، منطق اور استدلال کی جانب راغب کرنے اور ان کے اندر تخیل، تخلیق او رتحقیق کے فن کو جلا بخشنے میں والدین ، اساتذہ کرام، مذہبی رہنما ، شعرائے کرام ، ادیب ، سیاسی رہنما ، متعلقہ حکومتی و غیر سرکاری ادارے اور سول سوسائٹی کو حقیقی معنوں میں اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔
ان کو فلسفہ ، منطق اور استدلال کی جانب راغب کرنے اور ان کے اندر تخیل، تخلیق او رتحقیق کے فن کو جلا بخشنے میں والدین ، اساتذہ کرام ، مذہبی رہنما ، شعرائے کرام ، ادیب ، سیاسی رہنما ، متعلقہ حکومتی اور غیر سرکاری ادارے اور سول سوسائٹی کو حقیقی معنوں میں اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔
نوجوانوں سے کہنا ہے کہ آپ اپنے خیالات کاجائزہ لیں۔ اس طرح آپ جان سکیں گے کہ آپ حقیقت میں کیا ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ آ پ اپنی کمزوریوں، خوبیوں اور اہداف پر بھرپور انداز میں فوکس کرسکیں گے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟اگر آپ کواس چیز کا علم ہوجائے تو آپ زیادہ آسانی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں اور اسے پاسکتے ہیں۔