اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ دھمکیوں کے بجائے ٹرمپ برکس کی ڈالر سے دوری کی وجہ ڈھونڈیں۔ انہوں نے امریکی ڈالر میں اقتصادی پابندیوں کا کھلم کھلا استعمال اور ممالک کو سزا دینے کیلئے ٹیرف میں اضافہ دوری کی اہم وجوہات قرار دے دیں۔ تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی تجارت کے لیے امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے چین، روس کی حمایت یافتہ برکس کے رکن ممالک پر 100 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی دینے کے بجائے امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ممالک تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے استعمال سے کیوں دور جا رہے ہیں۔ پاکستان کے نامور ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق ایچ خان نے برکس سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ امریکی ڈالر میں اقتصادی پابندیوں کا کھلم کھلا استعمال اور ممالک کو سزا دینے کے لیے ٹیرف میں اضافہ وہ اہم وجوہات ہیں جو اہم معیشتوں کو برکس کے پلیٹ فارم کے تحت جمع ہونے اور امریکی ڈالر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی کرنسیوں میں تجارت شروع کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ 100 فیصد ٹیرف لگانا بچوں کا کھیل نہیں ہے جیساکہ اس طرح کے اقدامات سے ڈالر کے استعمال میں کمی میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ ملک کے ایک تجربہ کار ماہر معاشیات ثاقب شیرانی کہتے ہیں کہ چونکہ بریٹن ووڈس نظام دوسری جنگ عظیم کے بعد نافذ کیا گیا تھا، امریکہ نے ڈالر کو عالمی تجارت کے لیے کرنسی کے طور پر داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سونے کے معیار سے ہٹنے کے بعد امریکہ نے گرین بیک کی ریزرو کرنسی کی حیثیت اور اس کے ساتھ آنے والے ’’بہت زیادہ استحقاق‘‘ کے تحفظ کے لیے سرگرمی سے کوشش کی ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ تاریخ میں کچھ امریکی تنازعات، جیسے لیبیا میں کرنل معمر قذافی کو ہٹانے کی فوجی مہم، ان ممالک کی جانب سے امریکی ڈالر میں تیل کی فروخت سے ہٹنے کے اقدام کا نتیجہ، مثال کے طور پر، یا متبادل عالمی ادائیگی کے نظام کا حصہ بننا ہے۔ برکس ممالک کے خلاف تازہ ترین جارحانہ عمل اسی کا تسلسل ہے۔