• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے سینئر صحافی و تجزیہ کار لکھا جائے

ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان
صرف لکھا ہی نہ جائے بلکہ کہا اور سمجھا بھی جائے خواہ میں کسی اخبار یا ٹی وی چینل کی سکرین پر آئیں بائیں شائیں بھی کر رہا ہوں تو میرے نام کے ساتھ جلی حروف میں سینئر تجزیہ کار کی اضافت لازماً لگائی جائے کیونکہ پتا نہیں کب اور کیسے میرے دماغ میں یہ وسوسہ یا خناس سما چکا ہے کہ میں ایک سینئر صحافی ہوں اور لکھنے کے جرثومے میرے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں، میں نے ان حشرات کا علاج کروانے کی بجائے اسے فائدہ مند ذہنی بیماری سمجھتے ہوئے سوچا کہ اسے یونہی چلنے دیا جائے ممکن ہے یہ بیماری ہی مجھے پاکستان کے شعبۂ صحافت کے اوج ثریا تک پہنچا دے اور میں ایک بڑا کالم نگار، کہانی نویس، تجزیہ کار یا اینکر نما صحافی بن کر خاص و عام کی گردنیں دبوچنے، دشنام طرازی، سیاسی و معاشی ہر قسم کے معاملات پر عقل کل اور ہجو کرنے پر قادر ہو جاؤں۔ اس کے باوجود میرے چند ایک بظاہر خیر اندیش اور بہی خواہ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کم از ایک دفعہ تو کسی ماہر ڈاکٹر سے تشخیص کروالی جائے تاکہ اس مرض کی حساسیت کے پیمانے تو سامنے آ سکیں اور بروقت اس موذی مرض کا تدارک ہو سکے ، میں نے لمحہ بھر اس تجویز پر سوچا ضرور لیکن کیونکہ یہ مرض تھا ہی دماغی اس لئے کسی تجویز کو در خور اعتنا نہ سمجھا اور اس شعبۂ نامدار میں ناک پکڑ کر چھلانگ لگا دی ، دوسرا یہ کہ اگر کسی پل اس ضمن میں مشورہ کرنا چاہا بھی تو آشکار ہوا کہ اچھے ڈاکٹر تو سارے مارننگ شوز، مذہبی پروگرامز، کوئز شوز میں براجمان اور صحافی نہ ہوتے ہوئے بھی اینکرازم کر رہے ہیں تو پھر میں اپنے ذہنی مرض کی تشخیص اور علاج کیوں کراؤں بھلا، اللہ اللہ کر کے لکھنے کیلئے قلم اٹھایا تو زبان کے مسئلے نے سر اٹھا لیا کہ ہوں تو میں تو پنجابی لیکن اس رسم الخط میں لکھ نہیں سکتا، انگریزی ویسے ہی غیر ملکی زُبان ہے اور اُردو لکھنے میں بھی میرا ہاتھ ذرا تنگ ہی ہے لیکن پھر سوچا کیا فرق پڑتا ہے بیشمار پروفیسر، ڈاکٹر، ایکٹر،تھیٹر کے فنکار اس خانماں برباد ہوتے ہوئے پیشے میں در آئے ہیں تو ایک میں اس میں گُھس بیٹھ کر لوں گا تو صحافت کے اس اُجڑے چمن میں کون سی کونپلیں کھلنا بند ہو جائیں گی ۔ اگر کالم نگاری کرنی ہے تو مجھے اُردو کی شد، مد اور زیر زبر پیش سے تو شناسائی ہونی چاہئے، مجھے کم از کم یہ تو علم ہونا چاہئے کہ زبان اور زبان میں کیا فرق ہوتا ہے ، پاکستان اور پکستان بولنے میں لہجے کی درستگی کیا ہے، کاروائی لکھیں تو کیا غلطی ہے، خلط ملط اور غلط سلط کا کیا مطلب ہے، عاقبت نا اندیش یا ناعاقبت اندیش میں سے درست کون سا ہے، خیر آباد اور خیر باد میں سے صحیح لفظ کیا ہے، پھولوں کا گلدستہ لکھیں تو کون سی سنگین غلطی ہے، علماء کرام لکھنا درست ہے یا علمائے اکرام ، وزیر اعظموں یا وزراءاعظم لکھنا چاہئے ، کیا جامع، جامہ اور جامعہ کے معنی مختلف اور کیا ہیں ، دوا اور دوائی میں کیا غلط یا فرق ہے، چنانچہ اس طرح اُردو کے ہزاروں الفاظ ہیں جن سے آگاہ ہونا میرے لئے از بس ضروری ہے۔ لیکن میں نے آنکھیں بند کر لیں کہ اب یہ بلاوجہ کا تردد کون کرے اور خود کو باور کروایا کہ تم سینئر صحافی و تجزیہ کار ہو، خود کو سمجھایا کہ جاری حالات میں اس شعبۂ بے توقیر میں اگر ہر کوئی نائی، قصائی، کنجڑا، اور حلوائی اندھا دھند گُھسا چلا آ رہا ہے تو میرے آنے سے کون سا اس تالاب میں کائی اگ آئے گی ، چنانچہ یہ مرحلہ بھی عمدگی سے طے ہونے کے بعد میں نے ٹیڑھے میڑھے حروف ہی سہی چند صفحات لکھے جو من وعن چھپ بھی گئے اور بس کچھ ہی ہفتوں کی بات تھی میں نے اپنے آپ کو سینئر صحافی سمجھنا ماننا اور کہلوانا شروع کر دیا۔ ابھی بامشکل تمام یہ مراحل طے ہوئے ہی تھے کہ بے وجہ کے چند “خُدائی خدمتگاروں” نے صلاح دینی شروع کر دی کہ اگر تم سینئر صحافی و تجزیہ کار بننا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تم نے صحافت پڑھی یا کسی مستند صحافتی ادارے میں تربیت حاصل کی ہو، تھوڑا بہت ہی سہی لیکن تُمہیں پاکستان سمیت برصغیر ، براعظم ایشیا، یورپ، امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا کا حدود اربعہ اور اُن ممالک کی تاریخ و جغرافیہ کا علم ہونا چاہئے، پتا ہونا چاہئے کہ دنیا کی سیاست کیا ہے، حالات خاضرہ کی آگہی بھی لازمی ہے، انقلاب روس، انقلاب فرانس، جرمنی اور چین کے انقلابات سمیت، پہلی دوسری اور چند بڑی عالمی جنگوں کے بارے کم و بیش معلومات ہونی چاہئیں لیکن میرا مسئلہ دماغی تھا مجھے کیونکہ دُھن تھی سینئر لکھے و کہلوانے کی اور زندگی تھی کہ نکلی جا رہی تھی لہٰذا سوچا کہ یہ سب چونچلے کون کرے بھلا چنانچہ میں نے میرے نام نہاد خیر خواہوں کے اس مشورے کو بھی حرف غلط کی طرح اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ ابھی اس مفت مشورے سے نبرد آزما ہونے کی دیر تھی کہ میری سینیارٹی سے لال پیلے ہونے والوں نے ایک اور دُرفنطنی چھوڑی کہ اچھے صحافی اور تجزیہ کار کے لئے ضروری ہے کہ اُسے کم ازکم پچھلے ایک سو سال میں ہونے والے چند عالمی معاہدات کا علم تو ہونا ہی چاہئیے مثلاً ، 1923 میں عثمانی سلطنت اور یورپی طاقتوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ ، 1950 میں اقلیتوں کے تحفظ کا لیاقت نہرو معاہدہ، 1960 کا سندھ تاس معاہدہ ، 1963 کا سفارتی تعلقات کا ویانا کنونشن، 1966 میں پاک بھارت جنگ بندی اور کشمیر کے مسئلے کے پرُامن حل پر اتفاق رائے کے لئے معاہدہ تاشقند ، 1968 میں جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ ، 1972 کا شملہ معاہدہ ، 1978 کا مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم مینہم بیگن کے درمیان صلح کا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ، 1988 میں روس اور پاکستان کے درمیان افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے لیے جنیوا معاہدہ اور پھر سیٹو، سینٹو معاہدات کیا تھے اور کیوں ہوئے ؟ پھر اپنے ملک سے متعلق مجھے یہ علم تو ہونا چاہیئے کہ پچھلے 77 سال میں کیا کیا ہوتا رہا۔ اب میں نے ان ناہنجاروں کو بتایا کہ کسی روزنامہ ’’کبھی کبھار‘‘ کے مدیران نے اس سلسلہ میں میری کبھی بازپرس ہی نہیں کی تو بلا ضرورت میں اس قسم کے معلوماتی بوجھ اپنے دماغ پر کیوں ڈالوں ، اس قسم کے عقل کے اندھوں نے ایک اور حملہ میری سینیارٹی پر یوں کیا کہ مجھے اچھا کالم لکھنے اور بہترین تجزیہ کار بننے کے لئے بہت سی کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہےجن میں شاہنامہ فردوسی، کشف المحجوب، شیکسپئر کا ہیملٹ و رومیو جولیٹ، ایسوپ کی کہانیاں، خافظ کا دیوان، مولانا روم کی مثنوی، ابن خلدون کا مقدمہ، سعدی کی گلستان و بوستان اور نیوٹن، ڈارون اور کارل مارکس کے کارناموں کا مجھے پتا ہونا ضروری ہے ، چنانچہ میں ان ناصح اور واعظوں سے اسقدر تنگ آ چکا ہوں کہ میں نے اپنے ایک حقیقی خیر خواہ کے مشورے سے اوپر ذِکْر کی گئی تمام معلومات و علوم سے یکسر جان چُھڑانے کا ٹول ڈھونڈ لیا ہے جس سے صحافی و تجزیہ کار بننے کا میرا شوق و جنوں بھی پورا ہوگا اور میری سینیارٹی بھی قائم رہے گی۔ لہٰذا میں نے اینکر بننے کا آخری فیصلہ کر لیا ہے اور اب سوشل میڈیا پر بھی وی لاگ ’’چھوڑا‘‘ کروں گا، اب نہ تو مجھے معلومات کی بانسری چاہئے اور نہ علمیت یا تجربے کا بانس ! اس طرح میں ان تمام ’’علوم کی فضیلتوں اور معلومات کی مصیبتوں‘‘ سے بچا رہوں گا ، ملتمس ہوں کہ آئندہ مجھے سینئر صحافی و تجزیہ کار لکھا، کہا اور سمجھا جائے پلیز ۔
یورپ سے سے مزید