• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے بچپن سے یاد کروں تو اس وقت بڑی بوڑھیاں کہا کرتی تھیں۔ ’’جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘۔ ذرا بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ انگریز دوسری جنگ عظیم کی شکست کے بعد برصغیر سے بھاگنے کو الٹا سیدھا تقسیم پلان بتا کر رخصت ہوا۔ نیا ملک کیا تھا بس ہزاروں لاشیں، بے گھر لوگ اور حکومت اہلکار زمین پہ بیٹھ کر کانٹوں کو پن بنا کر لگا رہے تھے۔ انڈین گورنمنٹ نےتقسیم اسٹیٹ بینک میں اتنی تاخیر کی کہ پاکستان کی حکومت کو بڑے سیاسی رہنمائوں سے مدد لیکر، سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینی پڑیں۔ پاکستان آنے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ 20روپے مہینہ پہ نوکری کرنا پڑی۔ کوئی ملال نہیں تھا کہ نئے ملک میں سات بہن بھائیوں کے پلنگ ایک بڑے کمرے میں تھے۔ پھر نوکری کی تو مختار مسعود کے ساتھ مل کر قرارداد لاہور باقاعدہ پتھروں پر لکھوائی۔ اس کے بعد ہم نے قرارداد مقاصد کا شور سنا جو آج تک جاری ہے۔

آپ کو پس منظر سنانے کے بعد، تاریخی طور پر تحریک پر لکھی کتابوں کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہوئے بتانا ہےکہ مسلم لیگ کے علاوہ پنجاب میں سکندر حیات کی حکومت تھی۔ جنہوں نے اپنی مرضی کی الاٹمنٹ، جس میں فیکٹریوں اور گھروں کی تخصیص شامل تھی۔ کراچی میں یوپی سے آنے والے افسروں کی من مانی چلی اور اسی لمحے سے بیان میں تضاد کی وہ لہر چلی جو آج تک قائم ہے۔ ہم نے کشمیر کیسے حاصل کیا۔ آج تک کھل کر نہیں بتاتے۔ قائداعظم کی نماز جنازہ دو مرتبہ ہوئی تھی۔ سب کے الگ الگ بیانیے ہیں۔ فاطمہ جناح کی وفات کیسے ہوئی۔ یہ بات بھی روز کھلتی، روز بند ہوتی ہے۔

1965ء کی جنگ میں دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر کرادی گئی تھی دونوں ممالک میں پاسپورٹ کے ذریعہ آمدورفت طے ہوئی۔ پھر بھی غنیمت تھا کہ دونوں ملکوں کے ادیب اور دانشور ایک دوسرے سے مل لیتے تھے۔ خواتین خالی سوٹ کیس لیکر دلی جاتیں۔ دو دو سوٹ کیس بھر کر واپس آتیں۔ چلیں یہ بھی خیر تھی کہ دونوں ملکوں کی نصابی کتب میں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی نہیں تھی۔ زمانہ قیامت کی چال چل رہا تھا۔ 65ء کی جنگ کو راز کہہ کر بھٹو صاحب نے سیاست شروع کی اور ہر روز شملہ معاہدے کا ذکر اس وقت تک چلا جب تک 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بن گیا۔ جنگی قیدی دو سال بعد واپس لوٹے۔جتنے منہ اتنی کہانیاں تھیں۔ مگر جنرل نیازی جو خود ہتھیار ڈال کر لوٹاتھا تھے اسکے دروازے پر کسی نے پتھر، ڈنڈا تک بھی نہ مارا۔

کراچی میں لسانی جماعت کا فتنہ پیدا کیا گیا۔ اس کو پالا پوسا گیا ،سندھیوں اور دیگر حلقوں میں خوف و نفاق پھیلایا گیا۔ پھر ایک دوسرے ایم کیو ایم کے شہنشاہ جن کیلئے ٹی وی چوبیس گھنٹے نشریات کرتا تھا۔ اس کو فوری بندش کے ساتھ، سارے پارٹی کے سورما بوریوں میں بند لاشیں، چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ مال بہت بنایا تھا۔ کسی نے نہ پوچھا۔ تم ملک میں کیا کرنا چاہتے تھے۔ پھر لوٹ آئے، وہی نعرے۔اب لاہور میں مذہبی فساد ہوا۔ فساد اتنا بڑھا کہ اخباروں نے تصویریں دکھائیں کہ ہاتھ میں بلے لئے ہوئے دونوں کے جھنڈے زمین پر پڑے تھے۔ ساتھ ہی سرکاری طور پر الگ الگ عید میلاد اور محرم الحرام کے جلوس پولیس کی نگرانی میں نکالے جانے لگے۔

ابھی ہمارے یہاں سکون کی کوئی لہر نہیں آئی تھی کہ طالبان 20برس تک جس طرح کا اسلام کہتے، کوئی اس کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ حکومتیں درمیان کا ایسا رستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتیں کہ خود بہک جاتیں کہ آخر وہ کر کیا رہی ہیں۔ 9؍مئی 23نے ایک اور دوزخ کھول دیا۔ جس کے شاخسانے نہ عدالتوں میں نتیجہ دے رہے ہیں اور نہ ڈیڑھ سال سے سکون کا لمحہ ہی چھوڑ رہے ہیں۔

اللّٰہ تعالیٰ نے جب دنیا بنائی اور فرشتوں کو انسان کو سجدہ کرنے کو کہا تو شیطان ملعون نے انکار کیا۔ نہیں مانا وہی شیطان کبھی نیتن یاہو بن جاتا ہے کبھی کچھ۔ ادھرروزپٹاخے چلتے چلتے، ڈی چوک کا معرکہ ہو گیا۔ اب حکومت اور غریب عوام آمنے سامنے تھے۔ یہ منظر دیکھنے کیلئے پہلے پولیس تیار نہیں تھی۔ پھر دوسری فورس لائی گئی اور پھر فوج بھی سامنے آئی۔ کس نے کیا کیا۔ یہ آج تک زیر بحث ہے میڈیا پر۔ ختم کرنے کے بجائے دونوں طرف آگ بھڑکائی جارہی ہے۔ ہر روز دوچار جوان شہید، ہر روز کرم اور میانوالی میں سنی اور شیعہ لڑائی جاری ہے۔ بازار میں سبزیاں نایاب، گفتگو بے معنی، ساری صوبائی حکومتیں ڈولتی اور اکیلا لڑتا عطا تارڑ۔ پہلے اس کے دادا کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی تھی۔ اب یہ بحران اور قتل و غارت، جیسے اسرائیل جنگ بندی کے آرڈر کے باوجود، روز پچاس مظلوم فلسطینی مار رہا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر روز ٹی وی پر کبھی یہ کبھی وہ۔ پرانی لڑائی کی فلمیں دکھا کر خود کو ہوش مند ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو کرکٹ تک لڑائی اور فساد کسی منزل پر نہیں پہنچ رہا۔ تکلیف انڈین ٹیم کے مودیوں کی ہے اور ہم ہر روز طرح طرح کی وضاحتیں کر رہے ہیں۔

تازہ ترین