اسلام آباد (رپورٹ،رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستوں کی جلد سماعت کا عندیہ دیدیا، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ترمیم کیخلاف درخواستیں جنوری کے دوسرے ہفتے میں مقرر کرنا چاہتے ہیں، ہمارے پاس 26 ویں آئینی ترمیم سمیت بہت سے مقدمات پائپ لائن میں ہیں۔
آئینی بنچ نے پاکستان تحریک انصاف کے 9مئی 2023کی دہشت گردی اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں سے ٹرائل سے متعلق مقدمہ کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلافدائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران ایک عبوری حکمنامہ کے ذریعے فوجی عدالتوں کو 85 سویلین ملزمان کے مکمل ہونے والے ٹرائل کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ یہ فیصلے سپریم کورٹ میں زیرسماعت اس مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہونگے، عدالت نے قراردیاہے کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے ؟انہیں رعایت دیکر رہا کیا جائے، اور جنہیں رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے کے بعد جیلوں میں منتقل کیا جائے، دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جن دفعات کو کالعدم کیا گیا ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہوگا؟جس پر وزارت دفاع کے وکیل کا کہنا تھا کہ پہلے والے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
سینئر جج ،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل سات رکنی بینچ نے جمعہ کے روز انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی۔ عدالت نے زیر سماعت اس مقدمہ کے علاوہ دیگر تمام آئینی مقدمات کی سماعت موخر کر دی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ آج صرف فوجی عدالتوں سے ٹرائل کے اس مقدمہ ہی کی سماعت کی جائیگی۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے اپنے کل کے دلائل جاری کئے تو جسٹس جمال خان مند و خیل نے کہاکہ پہلے اس نقطہ پر دلائل دیں کہ کیا آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں؟ کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اسکے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی کیا وجوہات بیان کی گئی ہیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973میں کے آئین سے پہلے تشکیل دیا گیا تھا۔ فاضل وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں، جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں؟ کہ اسے خراب ہی کہہ دیں، جس پرفا ضل وکیل نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ کل بھی کہا تھا کہ عدالت کو نو مئی کے تمام تر واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کرنے تک کا ہی ہے۔
انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہاکہ اگر حکومت نے کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس پر حملے تک ہی رکھنا ہے تو عدالت کو یہ بھی بتا دیں؟جس پر انہوںنے موقف اپنایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، جوباضابطہ طور پرایک متفرق درخواست کے ذریعے عدالت میں جمع کرواؤں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے انکے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہوگا؟ نو مئی سے پہلے بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی؟ جس پر فاضل وکیل نے موقف اپنایا کہ عمومی طور پرکالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات کے تحت ہونے والے فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ آرمی میں کوئی شخص بھی زبردستی نہیں اپنی مرضی سے بھرتی ہوتا ہے، آرمی کی نوکری لینے والے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔