• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
چند روز قبل شام میں بشاالاسد کی حکومت کو حزب اختلاف کے گروپوں نے مل کے تاریخ کر دیا اور بشرالاسد کو بھاگ کے روز میں پناہ لینی پڑی۔ حزب اختلاف میں سے سب سے آگے رہنے والا اور مزاحمتی گروپ حیات التحریرالشام HTS ہے جو کہ ایک دہشت گرد جہادی گروپ ہے، جس کا تعلق القاعدہ کے ساتھ جا جڑتا ہے۔ یہ گروپ نصرہ فرنٹ میں سے نکلا جو کہ شام میں القاعدہ کی برانچ تھی۔ گویا ایک آمر سے جان چھڑوا کے اب شام کو عالمی دہشت گردوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اس HTS کو امریکہ اور مغرب کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ شام میں اکثریت سنی مسلم ہیں جبکہ 13 فیصد شیعہ (علوی گروپ) ہیں۔ اس کے علاوہ انہی 13 فیصد میں اسماعیلی اور ڈروز بھی شامل ہیں۔ شام کی مجموعی آبادی تقریباً سوا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں اس کی فوج کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار تھی جو کہ بشاالاسد کے بھاگ جانے کے بعد تتر بتر ہوگئی ہے اور اس وقت وہاں کسی قسم کی مدافعتی لڑائی نہیں ہے بلکہ یکطرفہ طورپر ان کے فوجی اڈوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس وقت شام میں داخل ہو چکا ہےاور بڑی تیزی سے اپنے گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہا ہے۔ شام لبنان کا پڑوسی ہے اور شام سے بھاگنے والے بہت سے فوجی لبنان میں گھس گئے ہیں اور وہاں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ جبکہ لبنان میں حزب اللہ کی پہلے ہی اسرائیل نے کمر توڑ دی ہے۔ حماس تو بالکل ہی Marginalize ہو چکے ہیں۔ اب اسرائیل کے پاس امریکہ اور یورپ کی بھرپور امداد ہے اپنے توسیع پسندی کے عزائم کو پورا کرنے کا بھرپور موقع آچکا ہے اور شام کا وہی حال کرنے جا رہا ہے جو اس سے پہلے امریکہ اور یورپ عراق اور لیبیا کا کر چکے ہیں، اور ان کی اپنی خودمختارحیثیت تو ختم ہو چکی ہے اور وہاں کوئی باقاعدہ حکومت نام کی چیز باقی نہیں بچی ۔ جو وسائل ہیں وہ لوٹے جا رہے ہیں عراق اور لیبیا کے تیل کی بڑی آئل کمپنیوں کے ذریعے لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ امن عامہ کنٹرول سے باہر ہے، شام پر اسرائیل نے جواز بنایا ہے کہ وہاں کچھ باغی گروپ ہیں جو کہ ایران کے حمایتی ہیں اور کچھ ISIS کا حصہ ہیں اس لئے ان گروپس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ دراصل اسرائیل شام کے ان علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے جو بعد میں کئی برسوں تک مقبوضہ علاقہ کہلائے ہیں۔ پھر یہ بھی سننے کو آرہا ہے کہ اسرائیل ان علاقوں میں لبنان کے لوگوں کو اور فلسطینیوں کو دھکیلنا چاہتا ہے تاکہ گولان کی پہاڑیاں اور ادھر سے غزہ مکمل طور پر اسرائیل میں شامل کر لیا جائے۔ ابھی تک کے حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اسرائیل کی ان عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ شام اور یمن دونوں جگہ پر صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ سعودی عرب ، ترکی ، قطر بھی نیٹو ممالک کے موقف کے حمایتی اور حزب اللہ کے مخالف ہیں کیونکہ حزب اللہ ایران کا اتحادی ہے۔ اس طرح اگر اس وقت خطے کی صورتحال دیکھیں تو آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ دراصل یہ تمام دائرہ جو تنگ کیا جا رہا ہے یہ بڑی تیزی سے ایران کی طرف بڑھ رہا ہے اور 2025 ایران کے لئے بڑی اور نئی مشکلات لے کے آنے والا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب ایران اس صیہونی زد میں آجائے گا تو پاکستان کے لئے مشکلات بڑھنی شروع ہو جائیں گی اور پاکستان پر بھی انڈیا کی طرف سے دباؤ بڑھنا شروع ہو جائے گا جو کہ اسرائیل کا اتحادی ہے۔ یہ سب اس پورے خطے میں واقعات رونما ہونے جا رہے ہیں جنہیں کئی برسوں سے کی جانی والی پیش گوئیوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شام اس وقت جن قوتوں کے ہاتھوں میں آچکا ہے اس سے نہ صرف اب شام کے اندر ان گروپوں میں اقتدار کی لڑائی شروع ہو جائے گی بلکہ لیبیا اور عراق کی طرح سول وار کا ماحول بن جائے گا۔ آج کی یہی نیوورلڈ آرڈر ہے کہ مذہب کے نام پر دنیا میں تقسیم پیدا کرکے انہیں آپس میں لڑایا جائے اور ترقی یافتہ ممالک جلتی پر تیل کا کام کرتے رہیں اور اس دنیا کی آبادی کے 70 فیصد حصے کے وسائل پر اپنا ہاتھ بھی صاف کرتے ہیں۔ اصل میں تو یہ سب دنیا کے وسائل کو چند ہاتھوں میں لینے کی سرمایہ داری نظام کی بھوک ہے۔
یورپ سے سے مزید