فکر فردا … راجہ اکبر داد خان عمران خان جیل میں ہیں ۔ایک ٹی وی رپورٹ میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اس وقت تک ان کو 75 کیسز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں سے اب بڑی تعداد میں ختم ہو چکےہیں۔ حکومت اس حکمت عملی پر کام کرتی رہی ہے کہ جونہی عمران خان کسی کیس سے باعزت بری ہو تو مزید کیسز میں ان کا نام ڈال دیا جائے۔ ان حالات میں انہیں باعزت باہر نکلنے کیلئے ایک اور عمر کی ضرورت ہے، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، پچھلے چھ ماہ پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ علی امین گنڈاپور جو وہاں کے وزیراعلیٰ ہیں، نے عمران خان کی رہائی کیلئے متعدد احتجاجی مظاہرے ، جلسے، جلوس اور عوامی جرگے منظیم کئے ہیں تاکہ حقیقی حکمرانوں پر واضح کیا جاسکے کہ عمران خان ایک مضبوط عوامی قوت ہیں اور ان کی اس قوت کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ ان کی اس عوامی پذیرائی کو ریاست پلس پوائنٹ تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ معاملات اس طرح طے کرے کہ نہ ہی ایک کی سبکی ہو اور نہ ہی حکومت نیچے گرتی نظر آئے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے ٹریک ٹو پالیسی شروع کرکے مسلم لیگ ن کے اندر جو نئی روح پھونکی ہے ایسی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت کو بنے تقریباً ایک سال ہونے کو ہے، ان کی حکومت اچھل کود موڈ سے باہر نہیں نکل پا رہی اور نہ ہی حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے ، عمران خان کی مقبولیت کم کرناان کا پہلا اور آخری ہدف ہے۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں چلنے والی یہ جماعت نہ ہی پاکستان کو درپیش اہم مسائل پر پالیسی بیانات جاری کر رہی ہے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اہم امور پر اپنا بیانیہ عوام کے درمیان رکھ رہی ہے۔ صدر جماعت کا ذاتی ایجنڈا کہ اگلے انتخابات تک پنجاب کی چیف منسٹر کو وزارت عظمیٰ کی اگلی باری کیلئے تیار کرنا ہے بہرحال آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بنے تو تقریباً 12 ماہ ہونے کو ہیں مگر اسٹبلشمنٹ کو قبول ہونے کے باوجود اس حکومت کو اپنی عوامی اور آئینی حیثیت پر یقین نہیں۔ اگرچہ پچھلے انتخابات سے لے کر اب تک ن لیگ والے اکا دکا انتخابی معرکہ جیت رہے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جہاں عوام کی بھاری تعداد کو آزاد اورشفاف طریقہ سے اپنی انتخابی قوت کے اظہار کے مواقع میسر نہیں، مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے ، کے پی کے میں ن لیگ بہت کمزور ہے، مسلم لیگ ن میں صف اول کے رہنما جماعت کے اندر پائی جانے والی بے چینی کو ایک حد تک سمجھ رہے ہیں مگر جماعت کے اندر موروثیت کے بڑھتے سائے اور جماعت کے اندر تنظیمی معاملات پر کارکنوں کو آن بورڈ رکھنے میں قائدین کی ناکامی نے کئی اہم رہنمائوں کو جماعت کے اندر رہتے ہوئے آوازیں بلند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں اسپیکر ایاز صادق جماعت کے اندر باالخصوص عمران خان کے حوالے سے ایک معتدل اپروچ اختیار کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان بات چیت کے دروازے کھلنے کے امکانات پر بحث چل رہی ہے مگر وزیراعظم اور عمران خان کے درمیان دوریاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں جہاں ان میں کمی آنے کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کیلئے ان دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ کو ایک مزید پر لانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ایاز صادق کے ذریعہ دونوں جماعتوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ریاستی مفاد کی سیاست، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی سیاست سے بڑا پراجیکٹ ہے اور اس پراجیکٹ کی کامیابی کیلئے ریاست تمام آئینی اور قانونی اقدامات اٹھائے گی۔ اگر دونوں جماعتوں کے قائدین ایسے منصوبہ جات جو ریاست کے بہترین مفاد میں ہیں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مددگار نہیں بنیں گے تو ریاست متبادل ذرائع (افراد) تلاش کرنے میں قطعی دیر نہیں کرے گی اور نہ ہی دیر ہونی چاہئے۔ ایاز صادق کا بحیثیت متبادل انتخاب کر لیا گیا ہے۔ ٹریک ٹو پالیسی اسی وقت آگے بڑھ کر معاملات میں مددگار بن سکتی ہے جب معاملات اتنے اہم ہوں کہ انہیں نہ ہی مستقبل پر چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان معاملات کو سرے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں قومیں اور افراد غیر روایتی ذرائع اختیار کرتےہوئے درمیانی راستے نکال کر اپنے مقاصد کو ممکن حد تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹریک ٹو پالیسی کی وجہ ہی سے امریکہ اور چین کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ پاکستان نے دونوں ملکوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شنید میں ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جلد عمران خان سے ملنے اڈیالہ جیل بھی جا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا شاندار نمونہ ہوگا۔ پی ٹی آئی فی الحال ایک فعال پراجیکٹ ہے مگر (ن) اور پی پی کی Sell by Date ختم ہونے کے قریب ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن مشکل میں بھی اپنےلئے سہولتیں پیدا کر لینے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اگرچہ پارلیمان کے اندر تعدادی طور پر بہت زیادہ وزن نہیں رکھتے مگر وہ خود اور اپنے پارلیمانی ساتھیوں کو اونے پونے فوائد حاصل کرنے کی خاطر دوسری جماعتوں سے تعاون کرنے کا بالکل مشورہ نہیں دیں گے۔