• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: مساجد میں ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگ کرنا کیسا ہے، اس مَد میں مسجد انتظامیہ کو معاوضہ دیا جائے یا بلا معاوضہ شوٹنگ کی جائے، دونوں صورتوں میں شرعی حکم کیا ہے؟ ہماری مسجد (نارتھ کراچی) میں ایک ڈرامے کی شوٹنگ کی جا رہی ہے۔ (محمد اختر ، کراچی)

جواب: مساجد اللّٰہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں، روئے زمین پر مساجد کا تقدُّس و احترام سب سے زیادہ ہے، مساجد اللّٰہ کی پسندیدہ جگہ ہیں، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ ترین جگہ مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہ بازار ہیں (صحیح مسلم: 671)‘‘۔

موجودہ دور میں ڈرامے اور فلمیں ان ناموں کا تصور ہی بے حیائی کی علامت مانا جاتا ہے، تاہم اگر آپ بہت پاکیزہ کہانی بھی بنائیں تو بھی ناپسندیدہ ہے، جھوٹ اور بناوٹ سے خالی نہیں ہے، ڈراموں کے فرضی کردار اور جھوٹی کہانیاں عام زندگی میں اس کی گنجائش نہیں ہے، آپ یہ سارا عمل مسجد کے اندر کریں تو اُس کی شناعت کس قدر بڑھ جائے گی، حدیث پاک میں رسول اللّٰہ ﷺ نے 3 مرتبہ فرمایا: ترجمہ: ’’جو لوگوں کو ہنسانے (خوش کرنے) کے لیے جھوٹی بات کرتا ہے، اس پر بے حد افسوس ہے (سُنن دارمی:2744)‘‘۔

اگر بہت ساری قیود کے ساتھ مشروط انداز میں مساجد میں اس کام کی اجازت دے دی جائے تو بھی اس کے ضمن میں دیگر مفاسد شروع ہونے کا قوی امکان ہے۔ مقاصدِ شریعت میں’’ سَدِّ ذرائع ‘‘بھی ہے یعنی ممکنہ طور پر در آنے والی برائیوں کا سَدِّ باب کرنا، حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کی قطعاً اجازت نہ دی جائے، مسجد کا ماحول پُرسکون اور عبادت کے لیے سازگار ہونا چاہیے۔

ماضی میں لاہور کی بادشاہی مسجد اور پھر مسجد وزیر خان میں ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگ کی گئی، جس میں بے پردہ خواتین بھی شامل تھیں، جس پر دینی حلقوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا، 2020ء میں محکمۂ اوقاف نے مساجد اور مزارات پر فلموں، ڈراموں کی شوٹنگ پر پابندی لگا دی تھی۔

مسجد میں ڈرامے اور فلمیں بلا معاوضہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تو اس عمل کا معاوضہ لینا زیادہ بڑے درجے کی برائی ہے، یہ جائز نہیں ہے۔

اس عمل سے روکنا نہ صرف امام صاحب بلکہ انتظامیہ اور ہر اُس شخص کی ذمہ داری ہے، جسے طاقت و قدرت ہو، بالخصوص جسے معلوم ہوکہ میری بات مانی جائے گی، اسے ضرور ممانعت کرنی چاہیے۔

نیز مسجد میں اداکاروں کو کھڑا کرکے نماز کی اداکاری کروائی جاتی ہے، ہماری نظر میں یہ نماز کی بھی اہانت ہے، کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور تعَبُّد، تضَرُّع اور حضوریِ قلب کا نام ہے، اسے اداکاری کے طور پر ادا کرنا استخفافِ عبادت ہے، اعاذنا اللہ منھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی، بے شک اُس نے شرک کیا (مسند امام احمد بن حنبل: 17140)‘‘۔