آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: کیا دو فریقوں کے مابین کسی تنازعہ کا فیصلہ کرنے پر ثالث یا کسی گاؤں کا علاقائی قاضی /مفتی اجرت طلب کرسکتا ہے؟ یا اسے اجرت دینا جائز ہے؟
جواب: دو فریقوں کے درمیان کسی تنازعہ کا فیصلہ کرنے کو تحکیم کہتے ہیں، اور فیصلہ کرنے والے کو ثالث یا حکم کہتے ہیں، تحکیم بھی ایک قسم کی قضا ہونے کی وجہ سے طاعت (نیکی) ہے، متقدمینِ احناف نے کسی بھی طاعت پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیا ہے، البتہ متأخرینِ احناف نے ضرورت کی وجہ سے کچھ چیزوں کا استثنا کیا ہے جس میں سے قضا بھی ہے، چنانچہ قضا کی طرح تحکیم پر بھی اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ حکم/ثالث میں فیصلہ کرنے کی مطلوبہ اہلیت موجود ہو، کیوں کہ اہلیت نہ ہونے کی صورت میں ثالث بننا ہی جائز نہیں ہوگا چہ جائے کہ اس پر اجرت لینا۔
اگر ثالث/حکم کے لیے حکومت یا عوام کی طرف سے مستقل اجرت مقرر ہے تو پھر فیصلہ کروانے والے فریقوں سے الگ سے اجرت طلب کرنا یا لیناجائز نہیں ہوگا، البتہ اگر باقاعدہ اجرت مقرر نہ ہو تو پھر فیصلہ کروانے والے فریقوں سے اجرت طلب کرنا جائز ہوگا، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ایک تو اجرت اپنی اور اپنے اہل و عیال کی معاشی ضرورت کے بقدر ہی وصول کرے، لوگوں کی ضرورت اور مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت زیادہ اجرت وصول نہ کرے۔
اور دوسرا اس بات کا خیال رکھے کہ یہ اجرت رشوت نہ بن جائے، مثلاً دونوں فریقوں سے برابر سرابر اجرت ہی وصول کرے، کسی سے کم اور کسی سے زیادہ وصول نہ کرے،اسی طرح فیصلہ کروانے والوں کو اجرتِ مثل کے علاوہ مزید تکلفات مثلاً ھدایا یا پرتکلف ضیافتوں پر مجبور نہ کرے۔ بلکہ اگر کوئی فریق خود سے بھی ھدیہ دینے کی کوشش کرے تو اس کا ھدیہ قبول نہ کرے۔