مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
صدیق اکبررضی اللہ عنہ امیرالمومنین ہیں، بلافصل خلیفۃ رسول اللہ ہیں، اہل سنت کااس پراجماع ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں سب سے افضل حضرت صدیق اکبرؓ ہیں، آپ بلاتوقف وتامل سرکاردوعالمﷺ پرایمان لائے، ساری زندگی سفروحضر میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ رہے۔
اپنا سب کچھ اپنے محبوب پر لٹادیا، روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ جب اسلام میں داخل ہوئے تو اس وقت وہ قریش میں بڑے ہی مال دار تھے، اور ان کا شمار اہل مکہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا، اسلام لانے کے وقت چالیس ہزار درہم یادینار کے مالک تھے، سب اسلام کی راہ میں خرچ کرڈالا، اور خلیفہ ہونے کے بعد خود انہوں نے اپنا وظیفہ مقرر فرمایا، وہ بھی صرف دو درہم یومیہ تھا۔
سرکاردوعالمﷺ کے ساتھ ان کی نسبت اورمحبت کی کوئی نظیر نہیں ملتی، سب کچھ آپ کی ذات پر لٹاکر بھی بے قرار رہتے، اس لیے الصادق المصدوقﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ اپنے مال وجان سے مجھ پر احسان کرنے والاصرف ابو بکرصدیقؓ ہے اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں جس کسی نے بھی مجھ پراحسان کیا ہے میں نے اس کابدلہ دے دیا اور اس کے احسان کو اتار دیا، مگر ابوبکر کا احسان کہ اسے میں نہیں اتار سکتا، اس کا بدلہ بس اللہ ہی انہیں قیامت کے روز ادا کرے گا۔ مقام نبوت کے بعد مقام صدیقیت سب سے افضل ہے اورا س کے سرخیل سیدناصدیق اکبرؓ ہیں، صدیق اکبرؓ جملہ فضائل وشمائل حسنہ کامجموعہ اورصداقت وامانت کا پیکر تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺکی تمام صفات وکمالات کامظہراورنمونہ صدیق اکبرؓ تھے، صفات نبوی کا پَرتو اور عکس تھے اور اتنی قوی نسبت اور ایسا مضبوط اتحاد تھا کہ جو صفات پیغمبرکی گنوائی گئی ہیں، وہی صفات ابوبکرؓ کی بھی تسلیم کی گئی ہیں، اس نسبت اتحادی پر بے شمار دلائل موجود اور لاتعداد واقعات شاہد ہیں، صدیق اکبر کو فنافی الرسول کا مقام ورتبہ حاصل تھا۔
طوالت کے خوف سے ذیل میں صرف دوواقعات درج کیے جاتے ہیں، ان سے قارئین خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ صحبت رسول نے صدیق اکبرؓ کوکس مقام تک پہنچا دیا تھا اور کس طرح رفیق اپنے محبوب کی صفات کا نمونہ بن گئے تھے کہ اپنے اورغیر دونوں معترف تھے۔
سرکاردوعالم ﷺپر جب پہلی وحی نازل ہوئی ،آپ ﷺ گھر تشریف لائے، اور حضرت خدیجہؓ سے تمام واقعہ بیان کرکے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کاخطرہ ہے (چونکہ وحی اور فرشتے کے انوار وتجلیات کا حضور کی بشریت پر دفعتہً نزول اور ورود ہوا، اس لیے وحی کی عظمت اور جلال سے آپ کویہ خیال ہوا کہ اگر وحی کی یہی شدت رہی تو عجب نہیں کہ میری بشریت وحی کے اس بوجھ کو نہ برداشت کرسکے یا بار نبوت سے مغلوب ہوکر فنا ہوجائے (سیرۃ المصطفی) حضرت خدیجہ ؓنے جن الفاظ سے آپ ﷺکو تسلی دی،خراج تحسین پیش کیا، وہ مختصر الفاظ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
بخاری ومسلم شریف کی روایت میں منقول ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہے: آپ کو بشارت ہو، آپ ہرگز نہ ڈریئے، خدا کی قسم! اللہ آپ کو کبھی بے یار و مددگار نہ چھوڑے گا، آپ ﷺتوصلہ رحمی کرتے ہیں، آپﷺ کی صلہ رحمی بالکل محقق ہے، ہمیشہ آپ ﷺسچ بولتے ہیں ،لوگوں کے بوجھ کو اٹھاتے ہیں ،یعنی دوسروں کے قرضے اپنے سر رکھتے ہیں ،اور ناداروں کی خبرگیری فرماتے ہیں، امین ہیں ،لوگوں کی امانتیں ادا کرتے ہیں ،مہمانوں کی ضیافت کا حق اداکرتے ہیں ،حق بجانب امور میں آپ ﷺہمیشہ امین اور مددگار رہتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص ایسے محاسن اور کمالات اور ایسے محامد اور پاکیزہ صفات اور ایسے اخلاق وشمائل ،ایسے معانی اور فضائل کامخزن اور معدن ہو، حق تعالیٰ جسے اپنی رحمت سے یہ محاسن اور کمالات عطا فرماتا ہے، اسے ہربلا اور ہرآفت سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
ایک طرف حضرت خدیجہ ؓکی زبان مبارک سے سرکار دو عالم ﷺکی شخصیت سے متعلق مذکورہ بالاصفات کو مدنظر رکھیے اور دوسری طرف یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ شعب ابی طالب میں محصوری کے زمانے میں حضرت صدیق اکبرؓ بھی سرکاردوعالم ﷺکی اجازت سے حبشہ کی جانب ہجرت کی نیت سے نکلے، جب مقام برک الغمادتک پہنچے تو قبیلہ قارہ کے سردارابن دغنہ سے ملاقات ہوئی ،ابن دغنہ نے پوچھا، اے ابوبکر! کہاں کاقصدہے؟حضرت ابوبکرؓ نے کہا، میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، چاہتا ہوں کہ اللہ کی زمین میں سیاحت کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں۔
ابن دغنہ نے کہا، اے ابوبکر! تم جیسا آدمی نہ نکلتا ہے اور نہ نکالا جاتا ہے ،تم ناداروں کے لیے سامان مہیا کرتے ہو ،صلہ رحمی کرتے ہو، لوگوں کے بوجھ (قرضہ وتاوان) اٹھاتے ہو، مہمان نواز ہو، حق کے معین ومددگارہو، میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتاہوں ،تم لوٹ جاؤ۔
ابن دغنہ نے ابوبکرؓ کے جو اوصاف بیان کیے ہیں وہ بعینہ وہ اوصاف ہیں کہ جو حضرت خدیجہؓ نے نبی کریم ﷺ کے لیے شمارکیے تھے، جس سے ابو بکر صدیق ؓ کا فضل وکمال اور اپنے محبوب ﷺ سے نسبت کا علم ہوتا ہے۔ بقول مولانا محمد ادریس کاندہلوی ؒ کے :مقام نبوت کے مابین کوئی اورمقام نہیں، مقام صدیقیت کی نہایت مقام نبوت کی ہدایت سے جاکر ملتی ہے۔
دوسرا واقعہ جس سے نسبت اتحادی کھل کر سامنے آتی ہے وہ ہجرت کے واقعے میں سرکاردوعالم ﷺ کا حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے برتاؤ ہے، اس سے غایت درجہ اتحاد معلوم ہوتا ہے، جب مدینہ پہنچتے ہیں اور لوگ حضرت ابوبکرؓ کو پیغمبر سمجھ کر مصافحہ کررہے ہوتے ہیں، لیکن نبی کریم ﷺاس پر کوئی نکیر نہیں فرماتے۔ صدیق اکبرؓ کا مقصد یہ تھا کہ محبوب کی تھکاوٹ میں اضانہ نہ ہو، البتہ جب محبوب پر دھوپ آنے لگی توصدیق کپڑالے کر کھڑے ہوئے، تب دیکھنے والوں کو خبر ہوئی کہ آقایہ ہیں اور جن سے ہم مصافحہ کرتے تھے ،وہ غلام ہیں۔
حکیم الامت مجددملت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں: عارفین نے اس واقعے کا نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو جو فنافی الرسول ﷺکا عطا ہوا ہے۔
تاریخ طبری میں صحابہ کرام علیہم الرضوان سے منقول ہے کہ جب نبی کریم ﷺمدینہ پہنچے تو آپ کے ساتھ آپ کے ہم عمر ابو بکرؓ بھی تھے ،ہم میں زیادہ تر ایسے حضرات تھے جنہوں نے اس سے پہلے آپ ﷺکو نہیں دیکھا تھا، لوگوں کا وہاں اژدہام ہوگیا پہلے تو ہم آپ ﷺ اور ابوبکرؓ میں تمیزہی نہ کرسکے، البتہ جب آپﷺ پر سے درخت کاسایہ جاتا رہا تو حضرت ابوبکرؓ نے اٹھ کر اپنی چادر آپ ﷺپرتان دی، اب ہم نے آپ ﷺکوپہچان لیا۔
قارئین ان دونوں واقعات کوسامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ امیر المومنین خلیفہ رسول اللہ ﷺسیدناصدیق اکبرؓ کا سروردوعالم ، محبوب کائنات، محمد عربیﷺ سے کس قدر مضبوط اور گہرا تعلق تھا اور فنافی الرسول کاحقیقی مقام اور نسبت اتحادی انہیں حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حضرات کی نسبت واتباع دنیا وآخرت میں نصیب فرمائے ۔( آمین)