• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مدارس‘‘ کا کردار اور عصرِ حاضر میں اُن کی ضرورت و اہمیت

ڈاکٹر نعمان نعیم

قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقاءاور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں۔ قرآن و سنت اسلامی تعلیمات کا منبع ہیں اور دینی مدارس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے ماہرین، قرآن و سنت پر گہری نگاہ رکھنے والے علماء تیار کرنا اور علوم اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے ایسے رجال کار پیدا کرنا جو مسلم معاشرہ کا اسلام سے ناطہ جوڑیں اور دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا فریضہ انجام دیں۔

قرآن و سنت کے علوم و معارف سمجھانے کے لئے نبی کریم ﷺ نے دارارقم میں ایک درس گاہ قائم کی جس میں کلمہ پڑھنے والے لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی جاتی تھی۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آپ ﷺنے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو مدینہ بھیجا آپ نے بنی ظفر کے ایک وسیع مکان میں سیدھے سادھے مگر اسلامی دنیا کے بہترین مدرسے کا افتتاح کیا جو ہجرت مدینہ کے بعد "مدرسہ اصحاب صفہ" کی صورت میں پھلا پھولا، جہاں ہر وقت طلبہ علوم دینیہ کی کثیر تعداد موجود رہتی۔ اسی کے فیض یافتہ پوری دنیا میں پھیلے اور انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ابدی فلاح اور کامیابی کی طرف راہنمائی کی۔

مسلمان جب مدینہ منورہ میں رسنے بسنے لگے تو یہاں بھی ان کی تعلیم و تعلّم او ررہائش کا انتظام کیا گیا۔ جو صحابہ کرامؓ گھر خاندان والے تھے، وہ اپنے گھروں میں آباد ہوگئے اور وہ صحابۂ کرامؓ جو گھر والے نہیں تھے، بیوی بچوں کی ذمہ داریوں سے آزاد تھے، اور جنہیں دینی تعلیم کے حصول اور اللہ کی عبادت و ریاضت کے علاوہ دنیا کے کسی کام میں دلچسپی نہیں تھی ،وہ صفہ ہی کو اپنی کل کائنات سمجھتے تھے، اسی لیے انہیں ’’اصحاب صفّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

صفہ کے اسی تصوّر نے بعد میں ترقی کرکے مدرسے کی شکل اختیار کی اور پھر مختلف مدارس اور مکاتب میں صورت گر ہو کر دین اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کا ذریعہ بنا اس طرح ظلمت کی باقی اس دنیا اور تعلیم سے بیزار اقوام عالم میں علم کی روشنی پھیلنے لگی۔

دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پناہ گاہیں اور اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، وہاں یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز بھی ہیں جو لاکھوں طلبہ وطالبات کو بلا معاوضہ تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں رہائش وخوراک اور مفت طبی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں، دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنا کہ دین اسلام۔

سیکھنے سکھانے کے عمل کا آغاز پہلی وحی’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ‘‘ سے شروع ہو کر مکہ مکرمہ میں دار ارقم اور مدینہ منورہ میں مدرسہ صفہ تک جا پہنچا، جہاں معلم انسانیت ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے دنیا پر اسلام کے پرچم کو لہرایا۔ یہ ایسے مدارس تھے، جہاں پر آقا ﷺ تزکیۂ نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے نظر آتے اور صحابۂ کرامؓ یہاں اپنی علمی پیاس بجھاتے ، یہ سلسلہ چلتے چلتے مختلف ادوار میں مختلف انداز میں قائم رہا۔

دینی مدارس کا اپنا ایک مخصوص نصاب ہوتا ہے جو انتہائی پاکیزہ اور نورانی ماحول میں پڑھا یا جا تا ہے جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی وفارسی ، صرف و نحو، قرآن و حدیث ، تفسیر ، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب ، منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصا ب پڑھنے کے بعد وہ عالم دین کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔

ان دینی مدارس نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات ، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انگریز نے برصغیر میں اپنے تسلّط اور قبضہ کےلیے دینی اقدار اور شعائر اسلام مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دینی مدارس اور اس میں پڑھنے پڑھانے والے ’’ خرقہ پوش اور بوریا نشین‘‘طلبائے دین اور علمائے کرام ہی تھے، انگریز نے متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے دینی مدارس اور خانقاہوں کو مسمار کیا، آگرہ سے لے کر دہلی تک سیکڑوں علمائےحق کو پھانسی ’’کالا پانی‘‘ اور دیگر ظالمانہ سزائیں دیں۔

سیکڑوں علمائے حق نے اپنی تقریروں اور تحریکوں کے ذریعے مسلمانوں میں آزادی کی وہ روح پھونکی کہ جس کے نتیجے میں آخر کار انگریز برصغیر سے اپنا ’’بوریا بستر‘‘ سمیٹنے پر مجبور ہوگیا۔ تحریک پاکستان میں بھی ان علمائے حق اور دینی مدارس کا سنہرا کردارکسی سے پوشیدہ نہیں۔

دینی مدارس کا وجود ہر دور میں مسلم ہے۔ جس طرح اوزِ اوّل اس کی اہمیت تھی۔ آج بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ مدارس دینیہ کا قیام اور وجود مسلمانوں کے پاس وہ نعمت ہے جو تمام نعمتوں سے برتر اور اعلیٰ ہے۔ اسلام کی حقیقی روح کی بقاء اسی مدارس کے وجود میں پوشیدہ ہے، علم کے بغیر اسلامی عقائد پر ایمان رکھنا اور احکام پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے، موجودہ دور میں صحیح اسلامی علوم ان ہی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں، لہٰذا یہ وہ مراکز ہے جس سے منسلک رہ کر مسلمان اپنے دین کی حفاظت اور عقائد کو درست کرسکتے ہیں۔

ابتدائے اسلام میں مدارس کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ رات دِن دینی علوم کی ترویج اور اشاعت کا کام ہوتا تھا، اعلیٰ درجے کی تقویٰ کی وجہ سے مسلمانوں کا حافظہ انتہائی قوی ہوتا تھا۔ ہر قسم کے مسائل وہ صرف سُن کر یاد کرلیتے تھے۔ گردش زمانہ کی وجہ سےنہ تقویٰ کا وہ معیار رہا اور نہ حافظوں پر مکمل اعتماد رہا، لہٰذا مسائل کی حفاظت کے لیے اسے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ 

چناںچہ علماء نے احادیث کی مدد سے ہر قسم کے مسائل اور ان کے احکام کو لکھ لیا اور حفاظت کے واسطے انہیں کتابوں میں جمع کرلیا ،تاکہ کسی قسم کی غلطی کی گنجائش نہ ہو۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ کام باقاعدہ ایک جماعت کو کرنا چاہیے۔ کیوںکہ کام میں وسعت پیدا ہونے کی وجہ سے یہ ایک شخص کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ اکیلے سارا کام سنبھال سکے۔ 

اس کے بعد یہ مرحلہ آیا کہ کتابوں میں محفوظ احکام و مسائل کو دوسروں تک پہنچایا جائے چنانچہ پڑھانے والوں (اساتذہ) کی ضرورت پیش آئی جن کا کام یہ تھا کہ وہ ہر وقت تیار رہیں جو ان سے مسائل شرعیہ پوچھنے آئے یہ اُن کی راہنمائی کریں ۔ اس طرح وقت اور تقاضے کے لحاظ سے اس کی صورت گری ہوتی رہی، یہاں تک کہ آج مدارس منظم طریقے سے چل رہے ہیں۔

اہل مدارس کی اعانت اور امداد کرنا عوام پر لازم ہے۔ چونکہ دین کی حفاظت سب مسلمانوں پر فرض ہے، لہٰذا جو دین کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں، ہمارے ذمّے ان کی خدمت ضروری ہے۔ دین کا کام چونکہ ہم سب مسلمانوں کا مشترکہ کام ہے ،گویا کہ دین کا کام کرنے والے ہمارا ہی کام کررہے ہیں۔

جو لوگ علم دین ، پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف ہے وہ تمام مسلمانوں کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کررہے ہیں ،فرضِ کفایہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر کچھ مسلمان اسے ادا کریں تو باقی مسلمان گناہ سے بچ جاتے ہیں۔ اگر کسی نے بھی انجام نہیں دیا تو سب گناہ گارہوں گے۔ 

اگر مدارس والے بھی پڑھنا پڑھانا چھوڑدیں تو یہ کام ہر شخص کے ذمّے فرض ہوجائے گا اور پوری سوسائٹی فرض ترک کرنے کی وجہ سے گناہ گار ٹھہرئے گی۔ہمیں دینی مدارس کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کرکے ہمیں اس فرض کفایہ سے سکبدوش کردیا ہے۔

یہ بات واضح ہوگئی کہ جو لوگ دین کے کاموں میں مشغول ہیں، وہ ہمارے ہی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح تجربہ اور مشاہدہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ علم دین کے کاموں میں مشغولیت کے ساتھ ساتھ معاش کی فکر میں لگنے کی وجہ سے علم دین کا کام متاثر ہوتا ہے، کیونکہ اس کام کے لیے مکمل انہماک اور پوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور کسبِ معاش سے یہ انہماک اور توجہ باقی نہیں رہتی، لہٰذا یہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دین کے کام میں مشغول اہل مدارس کو کسبِ معاش کی فکر سے آزاد رکھیں، تاکہ وہ مکمل اطمینان اور توجہ کے ساتھ دینی امور انجام دے سکیں۔

اس تناظر میں ان دینی مدارس کی اگر معاشرتی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ مدارس نے ملت کو کیا کچھ دیا ہے۔

٭…مدارس ملک کے لاکھوں نادار افراد کو نہ صرف تعلیم سے بہرہ ور کرتے ہیں، بلکہ ان کی ضروریات، مثلاً خوراک، رہائش، علاج اور کتابوں وغیرہ کی کفالت بھی کرتے ہیں۔

٭…مدارس معاشرہ میں بنیادی تعلیم اور خواندگی کے تناسب میں معقول اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔

٭…مدارس عام مسلمانوں کو عبادات، دینی راہ نمائی او رمذہبی تعلیم کے لیے رجال کار فراہم کرتے ہیں۔

٭…مدارس عام مسلمانوں کے عقائد ، عبادات، اخلاق اور مذہبی کردار کا تحفظ کرتے ہیں اور دین کے ساتھ ان کا عملی رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

٭…مدارس اسلام کے خاندانی نظام اور کلچر وثقافت کی حفاظت کر رہے ہیں او رغیر اسلامی ثقافت وکلچر کی یلغار کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے مضبوط حصار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

٭…مدارس اسلامی عقائد واحکام کی اشاعت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف غیر مسلم حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کا جواب دیتے ہیں۔

مدارس اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عقائد واحکام سے انحراف اور بغاوت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی ”راسخ العقیدگی“ کا تحفظ کر رہے ہیں۔

٭…مدارس مادہ پرستی، مفادات، خود غرضی اور نفسا نفسی کے اس دور میں قناعت، ایثار اور سادگی کی روحانی اقدار کو مسلمانوں کے ایک بہت بڑے حصے میں باقی رکھے ہوئے ہیں۔

٭…مدارس وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کے مکمل اور محفوظ ذخیرہ کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں، بلکہ سوسائٹی میں اس کی عملی تطبیق کا نمونہ بھی باقی رکھے ہوئے ہیں،تاکہ نسل انسانی کے وہ سلیم الفطرت لوگ، جو ”عقل خواہش“ کی مطلق العنانی کے تلخ اور تباہ کن معاشرتی نتائج کو محسوس کرتے ہیں اور جن کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، انہیں وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کے حقیقی سرچشمہ تک رسائی میں کوئی دقت نہ ہو۔ اس طرح یہ مدارس صرف مسلمانوں کی ہی نہیں،بلکہ پوری نسل انسانی کی خدمت کر رہے ہیں او راس کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرہے ہیں۔

مادیت کے اس امڈتے ہوئے سیلاب میں آج اگر ’’قال اللہ و قال الرسول‘‘ کی صدائیں بلند ہو رہی اور بڑھتی جارہی ہیں تو یہ ان دینی مدارس اور اس میں پڑھنے ، پڑھانے والوں کا ہی ’’فیضان‘‘ ہے، یہ دینی مدارس اسلام کی پناہ گاہیں اور ہدایت کے سرچشمے ہیں اور یہ دین کی ایسی روشن مشعلیں ہیں کہ جن کی کرنیں ایک عالم کو منور کر رہی ہیں اور قیامت تک کرتی رہیں گی۔ (انشاء اللہ)