تفہیم المسائل
سوال: خالو محرم ہے یا نہیں، اسی طرح شوہر کا والد یعنی سسر بہو کے لیے محرم ہے یا نہیں ،(محمد عاطف، کراچی)
جواب: بعض رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے نکاح وقتی طور پر تو حرام ہوتا ہے، لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام نہیں ہوتا ،جیسے بہنوئی کہ جب تک ایک بہن اس کے نکاح میں ہے ، دوسری بہن کااُس کے ساتھ نکاح حرام ہے،لیکن اگر پہلی بہن کو طلاق دےدی تو عدّتِ طلاق گزرنے کے بعد یا وہ قضائے الٰہی سے فوت ہوگئی تو دوسری بہن کا اس کے ساتھ نکاح جائز ہے، اس لیے بہنوئی مَحرم نہیں ہے۔
اِسی طرح خالو اور پھوپھا دائمی محرم نہیں ہے، یعنی اگر حُرمت کا کوئی اور سبب موجود نہ ہوتو خالہ کے فوت ہوجانے یا طلاق ہوجانے کے بعد اس کی عدت پوری ہونے پر خالو سے نکاح ہوسکتا ہے ، حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ نہ عورت اور اس کی پھوپھی کو(بیک وقت نکاح میں) جمع کیا جائے اورنہ عورت اور اس کی خالہ کو (نکاح میں) جمع کیاجائے،(صحیح بخاری: 5109)‘‘۔)
جو ہمیشہ کے لیے حرام ہو ، وہ دائمی حرمت کہلاتی ہے ، جو کسی خاص صورت حال یا وقت کے لیے حرام ہو ، وہ غیر مُؤبَّدہ یعنی عارضی حُرمت کہلاتی ہے ، علامہ حسن بن منصور اوزجندی ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ حرمت نکاح کی دو قسمیں ہیں: (۱) مُؤبدہ (دائمی) (۲) غیر مُؤبدہ(عارضی) ، مُؤبدہ (حرمت) نسب ،رضاعت اور سسرالی رشتے سے ثابت ہوتی ہے ، (فتاویٰ قاضی خان ،جلد1،ص:177‘۔)
خُسر(سسر) بہو کے لیے مَحرم ہے اوراس کے ساتھ بہو کا نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ:’’ اور تمہارے نسبی بیٹوں کی بیویاں (تم پر )حرام کی گئیں، (سورۃ النساء:23)‘‘۔
تنویر الابصار مع الدُرّالمختار میں ہے :ترجمہ:’’ اور اپنے اصل(باپ دادا) اور فروع (بیٹے اور پوتے) کی زوجہ مطلقاً حرام ہیں، اگرچہ بعید ہوں ،خواہ اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، (حاشیہ ابن عابدین شامی جلد8، ص:104،دمشق)‘‘۔
علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں :ترجمہ:’’مَحرم وہ شخص ہے، جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو ،خواہ حرمتِ نکاح رشتۂ قرابت یا رشتۂ رضاعت یا رشتۂ مصاہرت (سسرالی رشتہ) میں سے کسی سبب سے ہو، کیونکہ دائمی حرمت سے خَلوت میں تُہمت کا اندیشہ زائل ہو جاتا ہے، اسی لیے فقہائے ِکرام نے کہا ہے : اگر مَحرم بھی قابلِ اعتماد نہ ہو(یعنی اس سے آبرو محفوظ نہ ہو)تو اس کے ساتھ بھی عورت کا سفر پر جانا جائز نہیں ہے،(بدائع الصنائع، جز ثانی ، ص: 187-188، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا،گجرات ،ہند)‘‘۔
یعنی جو محرم مرد رشتے دار کردار کے لحاظ سے بدنام ہو، مطعون ہو یا جسے اپنے نفس پر قابونہ ہو ، عورت کو چاہیے کہ ایسے محرم کے ساتھ بھی سفر نہ کرے یعنی فقہی اصول کے تحت تو سفر کی اجازت ہے، مگر بدکرداری ایسا عارض ہے ،جس کے سبب احتیاط لازم ہے، کیونکہ شریعت کاحکم ہے کہ تہمت کے مواقع سے بچاجائے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ عورت کے محارم میں تین قسم کے افراد شامل ہیں : (۱) ایسے مرد ،جن سے قرابت داری کے سبب ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو ، وہ محارم کہلاتے ہیں: مثلاً: باپ، دادا اوراس سے بھی اوپر والے ، بیٹا، پوتا اوران کی نسل ، چچا، ماموں ، بھائی ، بھتیجا ، بھانجا ۔(۲)جن سے رضاعت کے سبب نکاح حرام ہو، وہ بھی محارم ہیں: مثلاً: رضاعی بھائی اوررضاعی باپ ۔(۳) ایسے سسرالی مرد عورت رشتے دار جن سے مصاہرت (شادی )کی وجہ سے نکاح حرام ہوجائے، وہ بھی محارم ہیں: جیسے خُسر، ساس، داماد ، بہو وغیرہ۔
عورت جس مرد سے نِکاح کرتی ہے تو اس مرد کے اُصول وفُرُوع (اُصول سے مُراد باپ، دادا، پر دادا اوپر تک اور فُرُوع سے مُراد اولاد، ان کی اولاد نیچے تک) اُس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں ، یوں ہی شوہر پر اپنی بیوی کے اُصول وفُرُوع پر بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں۔
نامحرم یعنی جن رشتے داروں سے پردہ فرض ہے، وہ یہ ہیں: خالہ زاد ،ماموں زاد،چچا زاد، پھوپھی زاد،دیور، جیٹھ ، بہنوئی ،نندوئی ، خالو، پھوپھا ، شوہر کا چچا ، شوہر کا ماموں،شوہر کا خالو ،شوہر کا پھوپھا ، شوہر کا بھتیجا ، شوہر کا بھانجا وغیرہ ،یہ سب نامحرم ہیں اور ان سب سے پردہ ہے اور ان سے خَلوت میں ملنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے ۔( واللہ اعلم بالصواب)
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk