شرجیل انعام میمن وزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ، حکومت سندھ قوموں کی تاریخ میں بعض ایسے لمحے آتے ہیں ، جو صدیوں کا روگ دے جاتے ہیں ۔ 27دسمبر 2007ء کا دن ہماری قومی تاریخ کا انتہائی المناک دن ہے ، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کے ایک بہیمانہ واقعہ میں شہید کر دیا گیا ۔ 27 دسمبر کا دن دھرتی اور عوام کے لیے قربانی کا استعارہ ہے ۔8 سالہ جلاوطنی کے بعد جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا تو تمام دوستوں اور احباب نے انہیں منع کیا کہ وہ پاکستان واپس نہ جائیں کیونکہ حالات بہت خطرناک ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے ۔ متعدد بیرونی حکومتوں نے اپنی انٹیلی جنس رپورٹس سے شہید بی بی کو آگاہ کیا اور پاکستان کے مختلف خفیہ اداروں کی رپورٹس کے بارے میں بھی انہیں بتایا گیا کہ ان کا وطن واپس جانا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ پارٹی رہنما اور شہید بی بی کے قریبی حلقے بھی آخری وقت تک انہیں مشورہ دیتے رہے کہ وہ پاکستان نہ جائیں ۔ خود شہید بی بی کو بھی ساری صورتحال کا نہ صرف علم بلکہ یقین تھا کہ بعض قوتیں انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر چکی ہیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا ۔ وطن واپسی سے قبل انہوں نے اپنی آخری وصیت بھی تحریر کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ انہیں شہید بھٹو کے مزار کے احاطے میں کس جگہ دفن کرنا ہے ۔ جو لوگ بھی انہیں وطن واپس جانے سے روکتے تھے ، انہیں وہ صرف ایک ہی جواب دیتی تھیں کہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے ۔ اگر میں اس مرحلے پر وطن واپس نہ گئی تو تاریخ میں ہمارا شمار بزدل لوگوں میں ہو گا ۔ میں اپنے ملک اور اپنے عوام کو اس خطرناک صورت حال میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی ۔ وہ بار بار اپنے اس قول کو دہراتیں کہ’’ ہم دلائل پر بات کرنے والے لوگ ہیں ۔ ہمارے بھی نظریات اور جذبات ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے زندہ رہنا اور کیسے مرنا ہے ۔‘‘ تاریخ میں ایسے بہت کم لوگ پیدا ہوئے ہیں ، جنہوں نے اتنی بہادری کے ساتھ موت کو قبول کیا ہو ۔18اکتوبر 2007ء کو جب وہ وطن واپس آئیں تو کراچی ایئرپورٹ پر پورا پاکستان ان کے استقبال کے لیے موجود تھا ۔ پر امن جمہوری انقلاب کے لیے عوام کا سمندر امڈ آیا تھا ، جو شہید بی بی کے اس نعرے کی حمایت کر رہا تھا کہ پاکستان کی بقاء جمہوریت میں ہے ۔ پاکستان اور عوام دشمن قوتوں پر لرزہ طاری ہو گیا تھا ۔ لہٰذا ان قوتوں نے شہید بی بی پر پہلا حملہ 18 اکتوبر کو ہی کراچی کی شاہراہ فیصل کارساز کے مقام پر کیا ۔ بم دھماکوں کے ذریعہ دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائی میں شہید بی بی تو بچ گئیں لیکن 200 سے زائد جیالوں نے پاکستان کی بقاء اور جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں ۔ سانحہ کارساز کے بعد اب یہ بالکل واضح ہو گیا تھا کہ پاکستان اور عوام دشمن قوتیں شہید بی بی کی جان کے درپے ہیں ۔ 19 اکتوبر بلاول ہاوس کراچی میں جب پریس کانفرنس کے دوران شہید بی بی سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اب بھی پاکستان میں رہیں گی اور انتخابی مہم چلائیں گی تو ان کا جواب تھا کہ’’ وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ میں انتخابی مہم نہ چلاؤں اور واپس چلی جاؤں ۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت بحال نہ ہو لیکن اب اگر جمہوریت بحال نہ ہوئی تو پاکستان کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے ۔ میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہوں گی ۔‘‘وطن واپسی پر شہید بی بی اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ ایک کتاب کا مسودہ بھی اپنے ساتھ لائی تھیں ، جو بعد میں’’ مفاہمت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ میں نے اپنے والد کی گرفتاری ، قید اور قتل کا عذاب جھیلا تھا اور جانتی تھی کہ روح کے ایسے زخم کبھی نہیں بھرتے ۔ اپنے والد کی موت پر جو تکلیف میں نے جھیلی ، اس سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھی ، مگر یہ واحد کام تھا ، جو میں نہیں کر سکتی تھی ۔ '‘‘اپنی موت کے یقین کے باوجود شہید بی بی وطن واپس کیوں آئیں ، اس کی وجہ بھی وہ اسی کتاب میں تحریر کرتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ ’’ پاکستان کو طالبائزیشن کے ساتھ ساتھ بالکنائزیشن کا بھی خطرہ ہے ۔‘‘ بالکنائزیشن کا مطلب تقسیم در تقسیم ہے ۔ ملک کو انتہا پسند اور علیحدگی پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شدید خطرہ تھا اور اس وقت کے حالات کو شہید بی بی اپنی کتاب میں ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں کہ ’’پاکستان خشک ایندھن کا گٹھا ہے ، جو بڑی تیزی سے آگ پکڑ سکتا ہے ۔‘‘ان خطرناک حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان کی قربانی دی اور پاکستان کو بچا لیا ۔ شہید بی بی نے ہمیشہ پاکستان کے بحرانی اور خطرناک حالات میں سیاست کی اور دھرتی اور عوام کے لیے بہت دکھ جھیلے ۔ وہ دنیا کی واحد لیڈر ہیں ، جنہوں نے دو فوجی آمروں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی غاصبانہ اور غیر جمہوریت حکومتوں کے خلاف جدوجہد کی اور جمہوریت بحال کرکے انتہا پسند اور علیحدگی پسند قوتوں کے ان خطرات کو زائل کیا ، جو ملک کی سلامتی کو درپیش تھے ۔ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کی آمرانہ حکومتوں میں ملک دولخت ہوا تو ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمرانہ حکومتوں کے نتیجے میں بھی ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوئے ۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو عالمی طاقتوں کی جنگوں میں جھونک دیا تھا اور اس کے نتیجے میں نہ صرف وفاق پرست اور روشن خیال جمہوری قوتوں کو کچلا گیا بلکہ انتہا پسند اور علیحدگی پسند قوتوں کو مضبوط کیا گیا ۔ 10اپریل 1988ء کو بھی جب شہید بی بی وطن واپس آئی تھیں تو پاکستان کی سلامتی کو انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں سے خطرات لاحق تھے ۔جمہوریت کی بحالی سے یہ خطرات کم ہو ئے ۔ 18اکتوبر 2007ء کو بھی جب شہید بی بی وطن واپس آئیں تب بھی مذہبی اور فرقہ ورانہ انتہا پسند قوتیں دہشت گردی کے ذریعہ ملکی سیاست پر حاوی ہو چکی تھیں ۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں حکومت کی عمل داری ختم ہو چکی تھی اور وہاں پاکستانی پرچم نہیں لہرایا جا سکتا تھا ۔ اگر شہید بی بی ان حالات اپنی جان داؤ پر لگا کر واپس نہ آتیں تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آج پاکستان کے حالات کیا ہوتے ۔ آج اگر پاکستان میں جمہوریت ہے ، انتہا پسند ، فسطائی اور علیحدگی پسند قوتیں کمزور ہوئی ہیں اور وفاق پرست جمہوری قوتوں نے 18 ویں اور 26 ویں آئینی ترمیم سے پیش رفت کرکے وفاق پاکستان اور جمہوریت کو مضبوط کیا ہے تو یہ سب کچھ شہید بی بی کی قربانی کا نتیجہ ہے ۔