کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرا م’’ رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال رانا ثناء اللہ کہتے ہیں نوازشریف، زرداری اور عمران خان براہ راست بیٹھیں یہ کس حد تک قابل عمل بات ہے اور کیا رانا ثناء اللہ کا بیان درست ہے؟ اس سول کے جواب میں تجزیہ کار فخر درانی نے کہا کہ سویلین بلادستی اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے تینوں کو مل بیٹھنا چاہیے، تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ماضی کو بھلا یا جائے، تجزیہ کار آصف بشیر چیمہ نے کہا کہ نوازشریف چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو سیاسی دھارے میں لایا جائے، تجزیہ کار عمر چیمہ نے کہا کہ عمران خان جیل میں بند ہونے کے باوجود ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔تجزیہ کار فخر درانی نے کہا کہ آئیڈیل بات یہی ہے کہ سویلین بلادستی اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے تینوں کو مل بیٹھنا چاہیے لیکن کیا یہ ممکن بھی ہے میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ممکن ہے۔عمران خان کا جو طرزِ سیاست ہے وہ اس بات سے متضاد ہے۔چھبیس نومبر تک تحریک انصاف تمام آپشن آزما چکی ہے قانونی راستہ بھی نہیں مل رہا ہے اب یہ مجبوری کے تحت بات کی جارہی ہے لیکن سنجیدگی اس میں بھی نہیں ہے صرف ٹائم گین کیا جارہا ہے۔تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ اگر آپ بات کو معنی خیز بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے یہ بڑے تین لیڈران مل بیٹھیں اور اس میں مولانا فضل الرحمٰن کو ڈال دیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ایک یہ کہ کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے اور دوسری طرف سے اعتماد سازی کے اقدامات ہونے چاہئیں۔ اگر نو مئی اور چھبیس نومبر کی بات کی جائے گی تو پھر آٹھ فروری کو کیا ہوا پھر کہا جائے گا 2018 کا معاملہ طے کرلیں مذاکرات کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ماضی کو بھلا یا جائے۔