• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالِ نو پر ہوائی فائرنگ کئی گھروں میں ماتم کا سبب

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

دنیا بھر میں نئے سال کا جشن منانے کی تیاریاں جاری ہیں، دنیا بھر میں اس حوالے سے لوگ الگ الگ انداز اپنا کر نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

کئی ممالک میں نئے سال کے موقع پر جشن کی تیاریاں کچھ روز پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں، جہاں لوگ اس موقع پر ساتھ مل کر کھانا کھانے، کہیں باہر تفریح پر جانے تو کہیں گھروں پر رہ کر یا رشتے داروں کے ہاں جا کر ہلا گلا کرتے یا کیک کاٹتے ہیں۔

ان سب چیزوں کے برعکس پاکستان میں اکثر سالِ نو سے کچھ دن پہلے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ’تم نے ہوائی فائرنگ کے لیے اپنا اسلحہ چیک کر لیا‘، ’ہوائی فائرنگ کے لیے اسلحے کی صفائی کر لی‘، ’ہوائی فائرنگ کہاں کرو گے گھر پر یا روڈ پر؟‘۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر سمیت پاکستان میں جب سالِ نو کا آغاز خوشی منا کر کیا جاتا ہے تو پھر اس کے کچھ ہی منٹس بعد پاکستان کے تقریباً ہر شہر کی سڑکوں پر ایمبولینس کی آوازیں کیوں سنائی دینے لگتی ہیں؟

پاکستان میں عوام کی بڑی تعداد ہر سالِ نو کے موقع پر ٹی وی اسکرینز پر رنگا رنگ آتش بازی دیکھتی ہے لیکن پھر یہی لوگ کچھ ہی منٹس بعد اسکرین پر دیکھتے ہیں کہ گولی لگنے سے متعدد لوگ زخمی ہو گئے یا پھر کچھ افراد کی جان چلی گئی۔

آپ خوشی کا جو بھی انداز اپنائیں آپ کی مرضی لیکن اس میں ذرا سی سوچ اور احتیاط شامل کر لی جائے تو اسے دوسروں کی پریشانی، دکھ یا تکلیف کا ذریعہ بننے سے روکا جا سکتا ہے۔

حکومت کے منع کرنے کے بعد ہوائی فائرنگ بھی جرم بن جاتی ہے لیکن پھر بھی ہر سال پاکستان میں کئی بڑے شہروں تعلیم یافتہ لوگ سمیت بڑی تعداد میں لوگ یہ جرم کرتے ہیں۔

اخلاقی طور پر تو پٹاخے پھاڑنا بھی صحیح نہیں کیونکہ اس کی آواز بزرگوں اور مریضوں سمیت کئی لوگوں کے لیے تکلیف دہ اور ڈرانے کا باعث بنتی ہے۔

اسی طرح ہوائی فائرنگ ناصرف لوگوں کے لیے تکلیف و پریشانی کا باعث ہے بلکہ اس سے کئی مرتبہ نہیں بلکہ ہر سال کتنے ہی لوگ زخمی یا پھر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ہوائی فائر کی گئی گولی پہلے آسمان کی سمت جاتی اور پھر اسی پریشر سے یہ اندھی گولی زمین کی طرف واپسی کا سفر کرتی ہے تو اکثر کسی کو لگ جاتی ہے اور اس کی ہلاکت یا زخمی کرنے کا سبب بن جاتی ہے جو بعض اوقات اس زخمی شخص کو عمر بھر کی معذوری بھی دے جاتی ہے۔

ہوائی فائر کرنے والا دراصل ایک اندھی گولی فضا میں چھوڑ دیتا ہے اور وہ ایک لمحے کے لیے اسے باعثِ مسرت سمجھتا ہے لیکن اس بات سے غافل رہتا ہے کہ یہ اندھی گولی کسی کی جان لے کر اسے قاتل بنا سکتی ہے یا کسی کو زندگی بھر کے لیے اپاہج بننے کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان میں متعدد اندھی گولیوں سے لوگوں کے زخمی یا جاں بحق ہونے کے کے لاتعداد واقعات رونما ہو چکے ہیں، اس کے ملزمان اکثر ناقص نظام اور تفتیش کی وجہ سے پکڑے نہیں جاتے بلکہ اکثر تو ہوائی فائرنگ کرنے والے کو بھی نہیں پتہ ہوتا کہ اس کی گولی کسی کو لگ گئی ہے لیکن اوپر سے ہر چیز کو دیکھنے اور سننے والا اللّٰہ تو سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہے کہ آپ کی ہوائی فائرنگ یا پٹاخے کی آواز سے کس مریض یا بزرگ کو تکلیف پہنچی یا کون زخمی ہوا یا کسی کی جان گئی۔

سالِ نو کا جشن منانے کے کئی اور طریقے اور انداز بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ کسی ایک خاص مقام پر چراغاں، لائٹنگ یا آتش بازی کر لی جائے۔

بچے، خواتین اور بزرگ افراد گھر پر ہوتے ہوئے بھی ہر سالِ نو کے موقع پر ہوائی فائرنگ اور پٹاخوں کی آواز سے ڈر اور سہم جاتے ہیں۔

اس ضمن میں حکومتی سطح پر سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، نیو ایئر، جشنِ آزادی سمیت ایسے تمام مواقع پر میڈیا پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں شعور بیدار ہو سکے نیز ہوائی فائرنگ کرنے والوں کو بھاری جرمانے اور سزائیں دی جائیں تاکہ ان کے خوف سے ہی لوگ ہوائی فائرنگ کرنے سے گریز کریں۔

خاص رپورٹ سے مزید