• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل فیض کا کورٹ مارشل، جنرل باجوہ کی گواہی کا فیصلہ نہیں ہوا، قانونی ٹیم، سابق ڈی جی آئی ایس آئی

اسلام آباد (فخر درانی)کیا پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی کورٹ مارشل کی کارروائی میں بطور دفاعی گواہ پیش کرنے کیلئے طلب کیا جائیگا؟ جنرل فیض کی نمائندگی کرنے والی ماہرین قانون کی ٹیم نے اب تک اس معاملے پر کوئی فیصلہ ہونے کی تردید کی ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 12؍ اگست 2024ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں آئی ایس پی آر نے تصدیق کی کہ ان کیخلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کا باضابطہ آغاز کیا گیا ہے۔ 10؍ دسمبر کو، ریٹائرڈ جرنیل پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی گئی، اور اس دن سے ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں باضابطہ طور پر شروع ہوا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل فیض کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کی اب تک کئی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ استغاثہ اس وقت اپنے گواہ پیش کر رہا ہے جس کے بعد دفاعی ٹیم اپنے گواہوں کو بلائے گی۔ ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اگر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عدالت طلب کرتی ہے تو وہ پیش ہوں گے، کیونکہ قانوناً وہ پیش ہونے کے پابند ہیں۔ ریٹائرڈ جرنیل نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی ہر سماعت میں شرکت کی ہے، کیونکہ کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے ملزمان کیلئے ایسا کرنا لازمی ہے۔ ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ جنرل فیض جسمانی لحاظ سے تندرست اور اچھی صحت میں ہیں۔ دی نیوز نے جنرل فیض حمید کے مرکزی وکیل میاں علی اشفاق سے رابطہ کیا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا دفاعی گواہوں کی فہرست کو حتمی شکل دی جا چکی ہے یا نہیں، اور یہ بھی کہ فیصلہ آنے تک کورٹ مارشل کی کارروائی کتنا عرصہ جاری رہے گی۔ ذیل میں اس نمائندے اور وکیل میاں علی اشفاق کے درمیان واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے ہونے والی مفصل بات چیت پیش کی جا رہی ہے۔ اس نمائندے نے میاں علی اشفاق سے کورٹ مارشل کی کارروائی سے واقف کچھ ماہرین قانون کے دعووں کے متعلق پوچھا۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ استغاثہ اور دفاعی گواہوں کی جرح کیلئے درکار وقت کی وجہ سے جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا فیصلہ آنے میں ایک ماہ سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے۔ سوال کے جواب میں میاں اشفاق نے کہا، ’’صرف وہی لوگ اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں جو ذاتی حیثیت میں کیس کی معلومات رکھتے ہوں یا پھر کیس کی پالیسی سے آگاہ ہوں۔ جرح ایک معمول کا طریقہ کار ہے، اور اس میں وقت لگتا ہے۔‘‘ جنرل فیض حمید کے وکیل سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا دفاعی گواہوں کی فہرست فائنل ہو گئی ہے اور ان کے دفاع میں کون پیش ہوگا۔ میاں علی اشفاق نے جواب دیا کہ جب استغاثہ اپنے مکمل شواہد پیش کر دے گا تو ہم اپنے گواہوں کا فیصلہ کریں گے۔ ہم دفاعی گواہوں کے بارے میں اپنا فیصلہ استغاثہ کے گواہوں کی ریکارڈنگ مکمل ہونے کے بعد کریں گے۔ یہ ابھی ابتدائی مرحلہ ہے، اور دفاعی گواہوں کو پیش کرنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ اس نمائندے نے میاں علی اشفاق سے یہ بھی پوچھا کہ کیا جنرل فیض حمید یا ان کی قانونی ٹیم جنرل قمر جاوید باجوہ کو بطور دفاعی گواہ بلائے گی؟ میاں اشفاق نے جواب دیا، ’’میں جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کر رہا۔ معاملہ کیس میں ہونے والی پیشرفت اور اس پیشرفت کے نتیجے میں گواہان کے مطابقت رکھنے کے متعلق ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ آیا یہ بات ہمارے لیے سوُد مند ثابت ہوگی بھی کہ نہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سسکتی ہے۔ فیصلے کو حتمی شکل دینے سے پہلے کافی غور و خوض ہوگا۔ جب ان سے ایسی میڈیا رپورٹس کے بارے میں پوچھا گیا جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وکلاء کی ٹیم نے فیض حمید کے دفاع میں جنرل باجوہ کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو میاں علی اشفاق کا کہنا تھا، ’’یقین مانیں میں شاید ہی کسی میڈیا والے سے رابطے میں ہوں۔ یہ لوگ اپنے تئیں گواہوں کی فہرستیں تخلیق کر رہے ہیں۔ تمام باتیں کیس کی کارروائی اور استغاثہ کے گواہان پر منحصر ہیں، کسی بھی ریٹائرڈ یا حاضر سروس گواہ کو بلانے کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔

اہم خبریں سے مزید