اسلام آباد (خصوصی جائزہ رپورٹ) اسلام آباد میں مسلم کمیونٹی کا منفرد اور تاریخ ساز اجتماع، دعوت کے باوجود ’’طالبان حکومت غیر حاضر‘‘ ، موضوع کے حوالے سے شرکاء کا سامنا کرنے سے گریز ،مسلم کمیونیٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے اسلام آباد میں ہونے والی مسلم ممالک کی دو روزہ کانفرنس کا آج آخری دن ہے، کانفرنس کے منتظیمن کے مطابق حکومتِ پاکستان اور مسلم ورلڈ لیگ کے اشتراک سے ہونے والی اس کانفرنس میں 45 سے زائد ممالک کی نمائندگی کرنے والے 140 سے زیادہ مندوبین شریک ہیں۔ملالہ یوسفزئی والدین کے ہمراہ اسلام آباد پہنچیں، آج کانفرنس سے خطاب کریں گی، طالبان حکومت پر تنقید، جبکہ سابق امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے پاکستان میں منعقدہ کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانفرنس افغانستان کو نشانہ بنانے اور طالبان رہنماؤں کو شرمندہ کرنے کے لیے ہے،اس کانفرنس کو اس حوالے سے منفرد اور تاریخ ساز قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ مسلمان ممالک کے نمائندے، تعلیم سے متعلق اہم شخصیات اور بین الاقوامی اداروں کے سربراہان بھی اس کانفرنس میں شریک ہیں جو مسلم کمیونٹی میں لڑکیوں کو حصول علم کی فراہمی کے حوالے سے انہیں آسانیاں اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے یکجا ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے دارالحکومت میں ہونے والی اس کانفرنس کو عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل ہو رہی ہے اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی مختلف پیرائے میں کانفرنس کے مقاصد پر تجزیے اور تبصرے کئے جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر کے وسط میں شنگھائی تعاون تنظیم کا 23واں سربراہی اجلاس پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں روس، ایران، انڈیا اور وسطی ایشیائی ممالک کے وزراء، سربراہان اور وزرائے اعظم نے شرکت کی اس طرح چار ماہ سے بھی کم عرصے میں موجودہ حکومت کا دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والا یہ دوسرا اہم (ایونٹ) ہے۔ اس کانفرنس میں افغانستان کی طالبان حکومت کے نمائندوں کو بھی باضابطہ طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن ان کی جانب سے کسی مثبت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ ایک طرف تو طالبان حکومت نے اس کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں خاموشی اختیار کی تو دوسری طرف سابق امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے پاکستان میں منعقدہ کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کانفرنس افغانستان کو نشانہ بنانے اور طالبان رہنماؤں کو شرمندہ کرنے کے لیے ہے۔