اسلام آباد ( اسرار خان )پاکستان کی نیٹ میٹرنگ پاور کی صلاحیت مالی سال 2023-24 میں 2,498میگاواٹ سے تجاوز کر گئی ہے، مجموعی سولرصلاحیت 10 ہزارمیگاواٹ سے متجاوز،کے الیکٹرک کی سستی،صارفین پر غیرمتناسب بوجھ بڑھ رہا ہے۔ماہرین کےمطابق K-الیکٹرک کی پالیسی کے نفاذ کی سست رفتار اور نیٹ میٹرنگ درخواستوں کی منظوری میں تاخیر کلیدی چیلنج ہیں جو 2021-22 میں 633 میگاواٹ تھی، دو سالوں میں 294 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ ریاستی ملکیت والے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) میں نیٹ میٹرنگ کا اپنانا نجی K-الیکٹرک کے مقابلے میں تیز تر رہا ہے، تاہم مجموعی سولر صلاحیت میں اضافہ، بشمول آف گرڈ، قومی گرڈ کے لیے چیلنجز پیدا کر رہا ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار صرف گرڈ سے منسلک چھتوں پر لگے سولر پاور کو ظاہر کرتے ہیں، آف گرڈ صلاحیت شامل نہیں ہے۔ تاہم، اندازہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی درآمد شدہ سولر صلاحیت اس عرصے میں 10,000 میگاواٹ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اگرچہ سولر انرجی کی پیداوار میں اضافہ صاف توانائی کی طرف ایک قدم ہے، لیکن اس نے توانائی کے شعبے کے لیے مالی اور تکنیکی رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔حکومت سولر انرجی میں اضافے کو گرڈ کے لیے ایک چیلنج سمجھتی ہے، کیونکہ غیر سولر صارفین پر غیر متناسب بوجھ پڑ رہا ہے۔ جیسے جیسے زیادہ صارفین گرڈ بجلی پر انحصار کم کرتے ہیں یا اپنی بجلی پیدا کرتے ہیں، گرڈ کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کی لاگت ان لوگوں پر بڑھتی جا رہی ہے جو اس کا استعمال جاری رکھتے ہیں۔ توانائی کے استعمال میں اس تبدیلی سے شعبے میں مالی عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔