• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوامی ایکشن کمیٹی۔۔۔۔ امید کی کرن

گریٹر مانچسٹر کی ڈائری… ابرار حسین
آزاد جموں و کشمیر طویل عرصے سے حکومت، ترقی اور عوامی حقوق کے حوالے سے مباحث کا مرکز رہا ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) کی تشکیل نے مسائل کے حل کے لئے نئی امیدیں پیدا کی ہیں۔ یہ کمیٹی مختلف گرپوںکا ایک اتحاد ہے جو کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس تحریک میں بیروزگاری، تعلیمی سہولیات کی کمی، صحت کی خدمات، اور شفافیت جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان دنوں برطانیہ کے مختلف علاقوں میں بھی برطانوی کشمیری کمیونٹی سے متعلق بعض تنظیموں نے آزاد کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی حمایت کے لیے اجلاس منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ بلاشبہ اوورسیز کشمیری، خاص طور پر برطانیہ میں مقیم کشمیری، اس تحریک کی حمایت کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ حمایت انصاف، امن اور عوامی فلاح و بہبود کے اصولوں پر مبنی ہو اور اسے سیاسی استحصال سے محفوظ رکھا جائے۔ آزاد کشمیر کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو گزشتہ ستر سال سے زیادہ عرصے سے آزاد کشمیر کے غریب عوام کا استحصال کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ یہ کبھی اسلام اور کبھی پاکستان سے الحاق کے نام پر آزاد کشمیر کے وسائل پر قابض رہے ہیں ۔ ان عناصر کو اب آزاد کشمیر میں چلائی جانے والی خالصتا اپنی مدد آپ کے تحت تحریک میں بھی بیرونی ہاتھ دکھائی دینے لگا ہے ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو غلط تاثردے کر آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق کی تحریک کو سبوتاژ کیا جائے اور ان عناصر کو بغیر عوامی حمایت اور انتخابات کے آزاد کشمیر کے اقتدار پر بٹھا دیا جائے تاکہ یہ پھر ماضی کی طرح آزاد کشمیر کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کر سکیں۔ یہ عوام کے مسترد شدہ عناصر ہیں پاکستانی مقتدرہ کو بھی چاہیے کہ انہیں اگر آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق سے کوئی غرض ہے تو پھر استحصالی عناصر کی ریشہ دوانیوں سے اس خطے کے لوگوں کو محفوظ رکھا جائے اسی طرح جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی تحریک کو صرف عوامی مسائل تک محدود رکھے ۔برطانیہ اور دیگر ممالک میں اس کمیٹی کی حمایت میں منعقدہ اجلاسوں کو بھی مملکت پاکستان کے مخالف عناصر کی سرگرمیوں سے محفوظ رکھا جائے ۔ اوورسیز کشمیری جن کے پاس وسائل سے بھرپور ایک کمیونٹی جو برطانیہ میں مقیم ہے دنیا بھر میں سب سے زیادہ فعال اور بااثر کمیونٹیز میں سے ایک ہے۔ اے جے کے کے مسائل میں اوورسیز کشمیریوں کی شمولیت کافی اہم رہی ہے لیکن اکثر یہ تعاون بکھرا ہوا ہوتا ہے۔ جے اے اے سی کی حمایت میں کامیاب ہونے کے لئے، اوورسیز کشمیریوں کو ایک متحدہ وژن کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ کسی بھی تحریک کا وجود کرپشن سے پاک رکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں بدعنوانی ایک مستقل مسئلہ رہا ہے جس سے عوام کے اعتماد کو ہمشہ ٹھیس پینچتی رہی ہے ۔ اوورسیز کشمیری اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے، سیاستدانوں کو جوابدہ بنا سکتے ہیں اور یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ جے اے اے سی صرف بنیادی حقوق کے حصول پر مرکوز رہے۔پرامن جدوجہد کی اہمیت: تاریخ گواہ ہے کہ پرامن تحریکیں ہی اکثر دیرپا تبدیلی کا سبب بنتی ہیں۔ جے اے اے سی کو اس بات پر عزم کرنا ہوگا کہ اس کی سرگرمیاں علاقے کے امن کو متاثر نہ کریں۔اوورسیز کشمیری پرامن رویے کو فروغ دے سکتے ہیں۔نوجوان نسل کو بھی شامل کیا جائے کشمیری ڈائیسپورا کا ایک چیلنج نسلوں کے درمیان خلا ہے۔جے اے اے سی نوجوانوں کو ڈیجیٹل ایڈووکیسی کے ذریعے شامل کر سکتا ہے۔اور اس کہلیے کلیدی تجاویز پر عمل کرکے بنیادی حقوق پر توجہ دی جا سکتی ہے جس میں شفافیت کو فروغ دیں اورپرامن طریقے اپنائیں۔وسائل کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو متحرک کیا جائے اور اگر ان تجاویز پر عمل کر لیا جاتا ہے تو پھر یہ تحریک آزاد کشمیر کے عوام کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہو گی ۔
یورپ سے سے مزید