اسلام آباد (عمر چیمہ) دسمبر 2018میں، ایف آئی اے کے ایک سب انسپکٹر نے غلام احمد رومی کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے اس کا کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور فون ضبط کر لیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ رہائی کے عوض 50؍ لاکھ روپے طلب کیے گئے لیکن آخر میں رومی کے گھر والوں کے ساتھ 15؍ لاکھ میں معاہدہ طے پاگیا لیکن اس کے باوجود غلام احمد رومی کو جیل سے رہا ہونے میں تین ہفتے کا وقت لگ گیا۔ رومی کا خیال تھا کہ اس کی مصیبت ختم ہوئی لیکن یہ تو بس شروعات تھی۔ گھر پہنچا تو اسے ایک اور جھٹکا لگا۔ رومی کرپٹو کاروبار کرتا تھا اور اپنے ورچوئل اثاثوں کو جمع کرنے کیلئے اس نے تین بٹوے (والیٹس) رکھے ہوئے تھے جن میں 11؍ بٹ کوائنز بھی شامل تھے۔ ایک بٹ کوائن کی موجودہ قیمت تقریباً 27؍ لاکھ روپے ہے۔ یہ پیسے سب انسپکٹر خالد سعید نے چرائے تھے۔ والیٹس کی ضبطی کاٹے گئے پرچے میں درج نہیں کی گئی۔ رومی کے بلاک چین ایڈریسز سے وابستہ ای میل اکاؤنٹس کو اس کے ضبط شدہ لیپ ٹاپ کا استعمال کرتے ہوئے غیر فعال کر دیا گیا تھا۔ تاہم، خالد ایک اکاؤنٹ کو غیر فعال کرنا بھول گیا اور اس سے پانچ بٹ کوائنز چوری ہو گئے۔ رومی اپنے والیٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم منتقلی کو ٹریس کرنے میں کامیاب رہا۔ سائبر کرائم کے سینئر افسران کو اطلاع دی گئی تو انکوائری کا حکم دیا گیا۔ سائبر کرائم کے اس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عصمت اللہ جونیجو نے خالد کو ’’شکایت کنندہ کے بلاک چین اکاؤنٹس سے الیکٹرونک کرنسی کی غیر قانونی اور غیر مجاز منتقلی، رقم چوری کرنے کے مجرمانہ فعل اور بے ایمانی‘‘ کا مجرم پایا۔ تکنیکی رپورٹ میں چوری شدہ رقم شامل نہ کرنے پر ایف آئی اے کے ایک سینئر تفتیش کار رضوان ارشد کو بھی جرم میں سہولت کار قرار ردیا گیا۔