فلسطین، اسرائیل جنگ بندی معاہدہ یقیناً ایک پائیدار عمل کی ضمانت ہونا چاہئے، گزشتہ روز غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کے ہجوم میں تین یہودی قیدیوں کو فلاحی تنظیم کے حوالے کیا گیا جس کے بدلے میں اسرائیل 200سے زائد فلسطینی ماؤں، بہنوں اور بچوں کو رہا کرے گا امن کیلئے یہ ایک خوش آئند عمل ہے جس میں بندوقیں خاموش ہو جائینگی اسکے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی کاغزہ میں جنگ بندی سے متعلق معاہدے کا باقاعدہ اعلان ارض فلسطین کے باسیوں کے روشن مستقبل کا تعین کر پائیگا؟ یہ سوال اسلامی دنیا کے اندر ایک تذبذب لئے ہوئے ہے جس میں بتدریج تین مراحل ہمارے سامنے ہیں جن میں پہلا مرحلہ جنگ بندی ہے، ارض فلسطین پر بچوں، خواتین، بوڑھوں کا خون ناحق جسکے دھبے جانے کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے؟ مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ انسانیت پر بارود برسانے کا سلسلہ اب شاید تھم جائے ”سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا کیا“ کے مصداق دونوں فریقین کے درمیان لاشوں کی واپسی کا بھی معاہدہ اعلان میں شامل ہے، دوسرے مرحلے میں قیدیوں اور یر غمالیوں کی رہائی ہوگی، اسرائیل ہر یرغمالی کے بدلے 30 فلسطینی قیدی اور ہر خاتون فوجی قیدی کے بدلے 50 فلسطینی قیدی رہا کرے گا۔معاہدے کے پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے جن میں تمام خواتین، بچے اور 50سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہیں،اسرائیل ان 1ہزار 650 فلسطینی قیدیوں کو رہا کریگا جو اس نے یرغمال بنا رکھے ہیں پہلے مرحلے کے 16ویں دن سے شروع ہونیوالے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد پر بات چیت بھی شامل ہے 6ہفتوں پر محیط جنگ بندی جو 19جنوری سے شروع ہورہی ہے کیا اسے دو فریقین کے درمیان امن کا مکمل اعلان تصور کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلیوں کا مکمل انخلا بھی تین فریقین امریکہ، مصر اور قطر کی کاوشوں سے ہونیوالے معاہدہ میں شامل ہے تیسرے مرحلے میں یہ قرار پایا ہے کہ وہ لاشیں جو مردہ یرغمالیوں کی ہیں ان کی واپسی اور سب سے اہم نکتہ تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کا ہے شامل ہے، اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پانے کی خبر پر غزہ کے ہزاروں باشندوں نے اسکے باوجود جشن منایاکہ انہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں، غزہ کے لوگ گروپوں کی صورت میں جمع ہوئے، گلے ملے اور اپنے موبائل فون کیساتھ اس اعلان کے موقع پر تصاویر کھینچتے رہے۔
وائرل ویڈیو میں نوجوانوں اور بچوں کو سڑکوں پر جھومتے اور خوشی میں نعرے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔حماس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ فلسطینی عوام کی عظمت اور غزہ میں مزاحمت کے بے مثال جذبے کا غماز ہے جو پچھلے 15ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔حماس نے اس معاہدہ کو فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت، امت مسلمہ اور عالمی سطح پر آزادی پسندوں کی ایک مشترکہ کامیابی قرار دیا ہے،مسلم امہ اک عرصہ سے آپس کی ریشہ دوانیوں کے پنجہ میں ہے 14کروڑ 84لاکھ 29ہزار مربع کلومیٹر دنیا کا کل رقبہ ہے دنیا کے چوتھائی حصے پر 61اسلامی ممالک موجود ہیں جن کا مجموعی رقبہ 3کروڑ 32لاکھ 75ہزار 405مربع کلو میٹر ہے دنیا کی کل آبادی 6ارب 21کروڑ 40لاکھ ہے اس میں مسلمانوں کی تعداد 1ارب 70کروڑ 27لاکھ 42ہزار ہے سوائے عیسائیوں کے کسی اور مذہب کے لوگوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ نہیں دنیا میں اس وقت اہم ترین بندر گاہیں 40ہیں جن میں ایک تہائی یعنی 14بندر گاہیں مسلم ممالک کی ہیں دنیا میں تیل پیدا کرنیوالے ممالک کی تعداد 17ہے جن میں سے 14مسلم ملک ہیں گیس کے بڑے ذخائر دس ممالک میں ہیں جن میں مسلم ممالک کی تعداد 5ہے یورینیم کے بڑے ذخائر رکھنے والے 7ممالک میں سے مسلم ممالک کی تعداد 4ہے دنیا کے اہم ترین بحری راستے بھی مسلم ممالک کے پاس ہیں سوال یہ ہے کہ وسائل اتنے زیادہ مگر اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود سمندر کے جھاگ کی طرح یہ بے وزن کیوں ہیں؟ اتنے کمزور کیوں ہیں؟ اپنی موت سے چند روز قبل لیڈی ڈیانا نے ڈوڈی الفہد کو مصری اخبار ”الاہرام“کے چیف ایڈیٹر محمد حسین ہیکل کی کتاب ”حضرت عمر“ پیش کرتے ہوئے ایک فقرہ کہا تھا کہ ”آپ کی تاریخ کتنی روشن ہے‘‘۔ لیڈی ڈیانا نے یہ فقرہ اُس قوم کی تاریخ کے بارے میں کہا تھا جو آج انڈونیشیا سے لیکر مراکش تک اور اُندلس سے یمن تک نااتفاقی کا شکار ہے غزہ میں فلسطین کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق رواں مہینے کی 14تاریخ تک غزہ میں 46 ہزار 640 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں کثیر تعداد بچوں کی ہے جنگ بندی کا معاہدہ گو تحریری شکل پاچکا لیکن بہت سے سوالات کا ریشم الجھا ہوا ہے کہ کیا اسرائیل غزہ کی سرحد پر بفرزون سے اپنی عسکری قوت کو نکال پائے گا یا وہیں رکھے گا؟ اسرائیل ان قیدیوں کی رہائی سے بھی انکاری ہے جن کو حماس رہا کرانا چاہتی ہے کیا ایسے میں یہ معاہدہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ پائیگا؟ اسرائیل نہیں چاہتا کہ غزہ کا انتظام حماس کی دسترس میں ہو پھر غزہ کا انتظام کس کی دسترس میں ہوگا؟جبکہ اسرائیلی وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے وزیر بھی اس معاہدے کی مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں اس کے باوجود گزشتہ روز امن عمل کے تحت دونوں فریقین کی جانب سے قیدیوں کی حوالگی کو ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔