پاکستان کے لیجنڈ اداکار ندیم بیگ نے سنیما انڈسٹری کے زوال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج ہماری فلمیں ڈراموں کی طرح محسوس ہوتی ہیں کیونکہ اب تجربے کار فلم ساز اب نہیں رہے۔
حال ہی میں نامور سیئنر اداکار نے ایک صحافی کو انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال پر کھل کر بات کی۔
دورانِ انٹرویو فلموں اور ڈراموں میں مماثلت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج جب فلمیں دیکھیں تو لگتا ہے ڈرامے دیکھ رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام لیجنڈ فلمساز گزر چکے ہیں، اب جو لوگ فلمیں بناتے ہیں وہ ٹیلی ویژن سے آتے ہیں۔
84 سالہ اداکار کا کہنا ہے کہ شکر ہے کہ کم از کم یہ لوگ تو فلمیں بنا رہے ہیں ورنہ ہماری فلمی انڈسٹری تو ختم ہوگئی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ بیشتر سنیما گھر بند ہو گئے، اسٹوڈیوز بند ہو گئے، اب فلمی ماحول ختم ہو گیا ہے، ہمارے پاس سہولتوں کی کمی ہے، وسائل نہیں ہیں ایسے میں جو لوگ اپنی صلاحیت کے مطابق کام کر رہے ہیں، ہمیں تو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
فلم انڈسٹری کے زوال پر بات کرتے ہوئے ندیم بیگ نے کہا کہ 1971 میں ہم تقسیم سے گزرے اور مشرقی پاکستان میں ایک بڑی مارکیٹ کھو بیٹھے، اس کے بعد اسٹوڈیوز ختم ہونے لگے، یہی ہماری فلم انڈسٹری کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان میں فلم اکیڈمیز نہیں ہیں اور ٹکٹ کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہو گئی ہیں، ہماری اصل آڈینس نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ تھے، جو تفریح کے لیے سنیما گھر آتے تھے۔ اب مہنگائی کی وجہ سے سنیما گھروں کا رُخ نہیں کر سکتے۔
ندیم بیگ کا کہنا تھا کہ آج بھی ہمارے پاس بےپناہ ٹیلنٹ ہے لیکن اسے صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔